Powered By Blogger

Sunday 10 August 2014

ٹماٹر کے بدلے چرچ کا مقدمہ


20 جولائی 2014 کو ایک حساس نوعیت کا کیس میرے پاس آیا معاملے کا تعلق اقلیتوں کے حقوق سے تھا اور قبضہ گروپ کراچی کے اہم ترین کاروباری علاقے میں موجود چرچ کی اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اس سلسلے میں ایک انتہائی مضحکہ قسم کا کیس چرچ کے عہدیداران پر قائم کیا گیا تھا۔ایک پادری ایک کاروباری معاہدہ کا ضامن تھا جس کے تحت دو کروڑ روپے کے ٹماٹر سپلائی کرنا تھے اور اگر معاہدے کے مطابق ایسا نہ ہوتا تو "ٹرینیٹی چرچ" صدر کی اربوں روپے کی قیمتی زمین اس معاہدے کے بدلے میں دینی تھی دوسرے الفاظ میں ٹماٹر کے بدلے چرچ دینے کا معاہدہ تھا مرکزی ملزم نے ضمانت قبل گرفتاری کروالی تھی اور معاہدے کا ضامن پادری پولیس کی حراست میں تھا
جب متعلقہ  کورٹ کی معلومات لیں تو پتہ یہ چلا کہ "جج" انتہائی ایماندار ہے یہ سن کر میں نے اپنے کلائینٹ سے کہا کہ آپ کوئی اور وکیل دیکھ لیں میں ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی کے کیسز اول تو لیتا ہی نہیں ہوں اور مجبوراً لینا بھی پڑجائے تو ایماندار جج کا کیس نہیں لیتا کیونکہ بلاوجہ آپ کو بھی تکلیف ہوگی اور مجھے بھی  اس لیئے آپ کو پہلے ہی آگاہ کررہا ہوں کہ آپ کا کام نہیں ہوگا کیونکہ جج ایماندار ہے وہ کام نہیں کرے گا
یہ سن کر میرے کلائینٹ کو سخت ترین مایوسی ہوئی اور کہا کہ کہ یہ کیسا اصول ہے کہ ایماندار جج کی عدالت کا کیس نہیں لیتے ہم تو ویسے بھی بے گناہ ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک تو ایماندار جج کام نہیں کرتے کیونکہ ان کو کام آتا ہی نہیں ہوتا دوسرا یہ کہ کورٹ کی فائل پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور معاملے کو بلاوجہ لٹکا کہ رکھتے ہیں یہ جج آپ کا کام کبھی بھی نہیں کرے گا بہتر ہے پولیس والوں سے ہی معاملات سیٹ کرلو تو زیادہ بہتر ہے تیسری بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کا بے گناہ ہونا ایک الگ سے جرم ہے
مختصر یہ کہ دوسرے دن ریمانڈ پیش ہوا کلائینٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹس سے ہی ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اس کو اس کی پروفیشنل فیس ادا کی   شام کو میرے کلائینٹ میرے آفس میں موجود تھے اور پرجوش ہورہے تھے کہ جج تو و اقعی  ایماندار ہے سب یہی کہہ رہے تھے کہ رشوت بالکل بھی نہیں لیتا
میں نے کہا کہ اس کے کورٹ اسٹاف نے آدھی بات آپ کو بتائی ہے وہ نہ ہی رشوت لیتا ہے اور نہ ہی کسی کاکام کرتا ہے چاہے جائز ہو یا ناجائز کیوں؟ کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایماندار ہے میں نے کہا کہ اب پوزیشن کیا ہے کلائینٹ نے بتایا کہ کل ضمانت کی درخواست جمع کروادیں گے اس کے بعد سماعت ہوگی اور امید ہے کہ ضمانت ہوجائیگی
خیر ضمانت کی درخواست جمع ہوگئی اگلے دن سماعت ہوگئی جج نے ملزم کو بے گناہ قرار دیا کاروباری معاہدہ جو دوکروڑ کا تھا جج نے رجسٹر نہ ہونے اور باقاعدہ نوٹری نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی مشکوک قرار دیا اور سماعت کے دوران ہی کہا کہ اس مشکوک معاہدے کو ایک طرف رکھ دو   اس کاغذ کی کوئی اہمیت نہیں میرے کلائینٹ پرجوش ہورہے تھے کہ ان کی تو لاٹری لگ گئی ایماندار جج کے پاس کیس چلاگیا کیس جھوٹا ہے اور جج بھی مکمل حمایت کررہا ہے اس لیئے ان کاکام تو ہوہی جایئگا
خیر جس دن آرڈر ہونا تھا جج صاحب نے "پراسرار "طور پر چھٹی مارلی کیس دودن بعد آرڈر پر چلاگیا اگلے دن جج آیا اور آرڈر والے دن پھر  "پراسرار" طور پرچھٹی مارلیتا ہے
اب کلائینٹ کو ہوش آگیا کہ یہ معاملہ ہی کچھ اور ہے  وہ شام کو روتے پیٹتے آگئے کہ ہم تو اس ایماندار جج کی وجہ سے برباد ہوگئے نہ یہ ضمانت دے رہا ہے نہ ہی مسترد کررہا ہے بلکہ جس دن آرڈر کرنا ہو اسی دن چھٹی مارلیتا ہے اور فائل بھی ساتھ ہی گھر لے جاتا ہے یہ کیا ڈرامہ ہے اسی دوران 15 دن گزرگئے
5 اگست کو مجھے کلایئنٹ ملنے آئے وکیل ساب آپ تو مہان ہیں آپ نے تو ہمیں پندرہ دن پہلے ہی بتادیا تھا کہ ایماندار جج کسی کاکام نہیں کرتے اب آپ کے پاس اس صورتحال کا کوئی نہ کوئی حل تو ہوگا میں نے کہا بالکل ہے تو بتاتے کیوں نہیں میں نے کہا آپ نے پوچھا ہی کب تھا آپ تو خود ہی ایمانداری کے جھانسے میں آگئے
خیر 5 اگست کو پھر کیس کی سماعت تھی ایماندار جج نے کہا کہ مجھے پرانے دلائل بھول گئے ہیں اس لیئے دوبارہ دلائل دیئے جائیں جس پر فریقین کے وکلاء نے دوبارہ دلائل پیش کیئے  ایماندار ناسور ایک بار پھر آرڈر کیلئے کیس رکھنا ہی چاہ رہا تھا کہ اقلیتی برادری کا ایک ہجوم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوگیا کچھ ناقابل اشاعت قسم کے معاملات ہوئے تھوڑی دیر میں ہی معاملہ ڈسٹرکٹ جج احمد صبا کے پاس پہنچ چکا تھا
شام کو ایک بار پھر کلایئنٹس میرے سامنے موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب کچھ کامیابی کے آثار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں اگر کل بھی اس ایماندار نے  کام نہ کیا تو کل شاید ہم کورٹ کو ہی آگ لگادیں میں نے کہا کہ اب کام ہوجائے گا
خیر اگلے دن ضمانت کی درخواست منظور ہوگئی
لیکن میرے لیئے ان لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوگیا جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر کام کررہے ہیں ایک نے پوچھا کہ وہ تصدق جیلانی کے تاریخی فیصلے کا کیا ہوا جو پشاور کے خود کش حملے بعد "سوموٹو" ایکشن کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے صادر کیا تھا اور وہ بینچ کہاں گیا جس ان معاملات پر نظر رکھنی تھی
میں نے کہا کہ تصدق جیلانی نے واقعی ایک تاریخی آرڈر کیا ہے لیکن شاید وہ اپنے ہی گھر کی کمزوری کا ذکر کرنا بھول گئے  کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں کوئی اہمیت ہے ہی نہیں اسی طرح چیف جسٹس پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں کسی قسم کی کوئی عزت نہیں  اس لیئے اقلیتوں کیلئے جو اچھے اچھے فیصلے سامنے آرہے ہیں ان کو کسی الماری میں سجا کر رکھ لیں اور اگر کوئی دل جلا پڑھنا چاہے تو یہ فیصلہ آن لائن بھی موجود ہے اردو اور انگلش دونوں زبان میں
لنک مندرجہ ذیل ہے
http://www.supremecourt.gov.pk/web/page.asp?id=1857
ایک نے کہا کہ یہ جو ہمارے چرچ کے پادری کو عدالت نے بلاوجہ 15 دن غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے جیل کی سلاخوں میں بند رکھا ہے اس کا کون ذمے دار ہے
میں نے کہا کہ یہ باتیں قبل از وقت ہیں سب سے پہلے اس بینچ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے سامنے معاملات لیکر آتے ہیں جس کے بعد کوئی رائے قائم کی جائیگی
ایک نے کہا کہ مرشد کے پاس کیوں نہیں درخواست لیکر جاتے
میں نے کہا کہ مرشد کو چرس اور اعلٰی کوالٹی کا گانجہ پینے ہی سے فرصت ملے گی تو تب کام ہوگا وہ تو روزانہ صبح سویرے چھٹانک بھر چرس کے دم لگا کر اپنے سارے غم مٹا لیتا ہے  اس لیئے اس کودرخواست دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
خیر پاکستان میں اقلیتوں پر جو بھی مظالم ہورہے ہیں مذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ قیمتی جائداد بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے اور ہماری ناکام اور نااہل عدلیہ ان مظالم میں برابر کی شریک ہے 

No comments: