Powered By Blogger

Thursday 28 May 2015

پہلے کیڑے کا علاج ہوگا



گزشتہ چند سالوں کے دوران   بلاگ لکھتے ہوئے صرف دو واقعات نےذہنی طورپر بہت ڈسٹرب کیا جن کا تعلق وکلاء سے ہی تھا
پچھلے سال ایک قابل اعتماد  وکیل صاحب  جو دوست بھی ہیں نے مجھے یہ بتایا کہ ایک سیشن جج  نے میری پولیس کےخلاف درخواست کو سننے سے ہی انکار کیا اور بااثر پولیس آفیسر کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی بجائے اس کو سپورٹ کی  اور میری درخواست کو سنے بغیر ہی مسترد کردیا
خیر میری یہ غلطی کہ اپنے دوست کی بات پر اعتبار کرکے ایک بلاگ لکھ دیا سیشن جج شریف آدمی تھے انہوں نے پیغام بھیجا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جس پر میں نے اپنے دوست سے رابطہ کرکے آرڈر کی کاپی مانگی تو وہ بیان تبدیل کرنے لگا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا بہرحال مجھے اس واقعہ نے سخت شرمندگی سے دوچار کیا لیکن وکیل صاحب کو اپنے جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہ تھی درخواست مسترد ہونا بہت دور کی بات ہے سیشن جج کے پاس کبھی پیش ہی نہیں کی گئی تھی
دوسرا واقعہ گزشتہ دنوں اس وقت پیش آیا جب میرے ایک انتہائی قابل اعتماد کولیگ نے  شام کو فون کرکے بتایا کہ اس کے ساتھ ایک مجسٹریٹ نے سخت زیادتی کی ہے اور اس  کوکمرہ عدالت سے  شناختی پریڈ کے دوران کمرہ عدالت سے نکال دیا جبکہ اس دوران لنک کورٹ کا اسٹاف کورٹ میں موجود تھا جو  مجھ پر ہنس رہا تھا  اصولی  طور پر وکلاء کے ساتھ کورٹ اسٹاف  کو بھی  باہر نکالنا چاہیئے تھا جس کے بعد وکیل صاحب نے بتایا کہ  ان کا جج سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ اور اچھا خاصا سخت کلامی ہوئی
میں نے اس پر ایک سخت  ترین بلاگ لکھا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وکیل صاحب نے اس واقعہ کی تردید کردی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے وکلاء صرف کراچی کے وکلاء کے ساتھ اگر کورٹس میں زیادتی ہوتی ہے تو اس کے وہ خود بھی مکمل طور پر ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم صرف بار روم میں بیٹھ کر بات کرنا جانتے ہیں ہم لوگ کینٹین میں بیٹھ کر بات کرنا جانتے ہیں
ہم پورا دن بار روم میں یہ سنتے رہتے ہیں کہ یہ ہورہا ہے اور وہ ہورہا ہے یہ کیوں ہورہا ہے تو وہ کیوں نہیں ہورہا
کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اگر ان کے خلاف کوئی  زیادتی ہوئی ہے کسی جج نے زیادتی کی یا کوئی غلط طریقے سے کورٹ چلارہا ہے یا وہ سائیلین یا عوام کو تنگ کررہا ہے تو رجسٹرار سندھ ہایئکورٹ کے پاس جاکر حلف نامے کے ساتھ درخواست دے دیں  تاکہ ایسے ججز کے خلاف سندھ ہایئکورٹ نوٹس لے سکے

جہاں تک میں سمجھا ہوں اور میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو لوگ بار روم میں بیٹھ کر ججز کی کردار کشی کررہے ہوتے ہیں ایسے لوگ جھوٹ بولتے ہیں  اور وکلاء کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں  کیونکہ اگر کوئی سچائی ہوتی تو وہ لوگ خود کیوں نہ اس  بے ضابطگی کو روکنے کی کوشش کرتے
 اس  واقعہ کے بعد اگر کوئی وکیل مجھے یہ کہتا ہے کہ فلاں جج زیادتی کررہا ہے یا اس نے یہ نیا کام کیا ہے تو اس کو میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی ٹھیک ہے آؤ رجسٹرار کے پاس چلے چلتے ہیں آپ حلف نامے کے ساتھ درخواست دیں  تو کاروائی ضرور ہوگی جس کے بعد کوئی تعاون پر آمادہ نہیں ہوتا اور اکثر لوگ ت سے تیتر ہوجاتے ہیں  یا گاف سے گول ہوجاتے ہیں
میری ذاتی رائے یہ بھی ہے کہ کراچی بار بھی شاید  اس لیئے  ایکشن نہیں لے پاتی کیونکہ ممبران مکمل تعاون نہیں کرتے ہونگے

میں صرف یہی کہوں گا کہ ایک مرد کی مردانگی کا تعلق اس بات  سے ہے کہ جب وہ کوئی بات کرے تو موت 
قبول کرلے لیکن اپنی بات سے ہٹنا بات کہہ کر مکرجانا ایک مرد کے شایان شان نہیں
نواب آف کالاباغ کے فرزند ملک مظفر اعوان جب اپنے قافلے کے ساتھ  گھر سے  ریاست کے دورے پر نکلے تھے تو  ان  کو راستے میں ہی یہ اطلاع دی گئی  کہ سامنے پہاڑی پر پراسرار نقل و حمل ہوئی ہے اور ہیلی کاپٹر سے لوگوں کو اتارا گیا ہے  خدشہ ہے کہ بنی افغان کے لوگ قافلے پر حملہ کرسکتے ہیں  سیکورٹی عملے نے  کہا کہ واپس گھر چلتے ہیں  آگے خطرہ  ہے تو  ملک مظفر اعوان نے یہ کہا تھا کہ   میں میدان چھوڑ کر واپس کیسے جاسکتا ہوں   کل  بنی افغان کیا سوچیں گے کہ نواب امیر محمد خان کا بیٹا  ملک مظفر  بنی افغان سے ڈر کر واپس بھاگ گیا ملک مظفر   اعوان نے سفر جاری رکھا  اور جب بنی افغان کے علاقے سے گزرے تو  مورچہ  بند بنی افغان نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قافلے پر  راکٹ لانچروں سے حملہ کیا  ملک مظفر  اعوان نے مقابلہ کیا موت کو قبول کیا لیکن میدان چھوڑ کر بھاگنا قبول نہیں کیا حالانکہ اگر وہ بھاگ جاتے تو اپنی جان بچا سکتے تھے

اگرچہ وکیل صاحب اپنی بات سے یہ کہہ کر  مکر چکے ہیں کہ بندوق چلانے کیلئے ان کا کاندھا استعمال ہوا لیکن  اگر وہ واقعہ جھوٹ پر مبنی تھا اور دیگر واقعات جھوٹ پر مبنی تھے تو میں ایک بات سمجھ نہیں پایا  وہ یہ کہ ایک مجسٹریٹ صاحب جن کا میں نے نام اپنے بلاگ میں نہیں لکھا اور نہ ہی ان کا کوئی حوالہ دیا بس چند واقعات کا ذکر کیا  میں ایک افسانہ نگار ہوں ہوسکتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہو  وکیل صاحب کے اپنی بات سے مکر جانے کے باوجود  وہ مجسٹریٹ صاحب کیوں  بضد ہیں  اور انہوں نے بلاوجہ ہی  کیوں فرض کرلیا ہے کہ میں نے ان کے خلاف بلاگ لکھا ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ خصوصیات جن کا ذکر میں نے قابل اعتراض انداز میں کیا وہ کسی نہ کسی کے اندر موجود ہیں    اور کیا وہ واقعات  سچ پر مبنی ہیں یہی وجہ ہے کہ  کوئی اس بلاگ کو اپنے خلاف سمجھتا ہے تو کیوں سمجھتا ہے  اگر کسی مجسٹریٹ کا ایسا ہی کردار ہے تو وکیل صاحب کے اپنی بات سے مکر جانے کے باوجود مجھے فخر ہے کہ میں نے  وہ قابل اعتراض  بلاگ لکھا تھا جس کے خلاف اتنا شور ڈالا جارہا ہے اور اگر کسی کا ایسا کردار نہیں ہے تو پھر معذرت کیوں کی جائے جب کسی کا نام نہیں لکھا گیا تو ایک فرضی کردار کے متعلق یہ تصور کرلینا کہ وہ  فرضی کردار  فرضی نہیں  ہے  سراسر بیوقوفی ہے اور اگر معذرت کی بھی جائے تو کس سے کی جائے ایک فرضی کردار جس کے خلاف بلاگ لکھا گیا میں اس کو کہاں تلاش کرکے معذرت کروں کراچی میں دوسو مجسٹریٹ ہے اب  ان دوسو میں سے کوئی کیسے اپنے اوپر بلاگ فٹ کرسکتا ہے


ایک شہر میں ایک ڈاکٹر آیا تو اس کے پاس جو بھی مریض آتا وہ تشخیص کرتا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے اور تمام مریضوں کو ایک پیلا سا شربت پلا دیتا تھا اس کے پاس سردرد کا مریض آیاتو اس نے تشخیص کیا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے    پیٹ کے کیڑے مارنے والی پیلی دوائی پلادی دل کا مریض آیا تو یہی تشخیص کیا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے گردے کا مریض آیا مرگی کا مریض آیا کھانسی کا مریض آیا دمے کا مریض آیا سب کو 
ایک ہی علاج ایک ہی دوا کہ پیٹ میں کیڑا ہے

پھر ایک دن ایک لڑکا کلینک میں آیا جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی سارا شہر جمع ہوگیا کہ آج ڈاکٹر صاحب  کا امتحان ہے ڈاکٹر نے حسب معمول چیک اپ کیا اور کہا کہ اس لڑکے کے پیٹ میں کیڑا ہے پہلے پیلی دوا پلائی جائے  لوگوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کو بیوقوف بنارہے ہو اس لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ اس کی  ٹانگ  پر مرہم  پٹی لگانے کی بجائے یہ تشخیص کررہے ہیں کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے
ڈاکٹر نے اس لڑکے کے والد سے پوچھا کہ لڑکے کی ٹانگ کیسے   ٹوٹی ہے تو اس کے باپ نے کہا درخت کی ٹہنی سے لٹک رہا تھا کہ درخت سے نیچے گرگیا
ڈاکٹر نے سکون سے جواب دیا کہ اگر کیڑا نہ ہوتا تو درخت سے کیوں لٹکتا

اس لیئے پہلے کیڑے کا علاج ہوگا 

No comments: