Powered By Blogger

Sunday 31 May 2015

اردو سوشل میڈیا ابھرتی ہوئی طاقت ٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

اردو بلاگ حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے
آج سے دوسال قبل جب میں نے اردو بلاگ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو میں یہ سمجھتا تھا کہ اردو بلاگ پڑھا ہی نہیں جاتا اسی دوران  ملک عامر صاحب سے رابطہ ہوا اور انہوں نے میرے بلاگ کو بلاگستان میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد  بلاگ پرتیزی سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوا کچھ حیرت انگیز واقعات بھی پیش آئے آہستہ آہستہ ایک چھوٹی سی پہچان بھی بن گئی  میں ایک خاص شعبے میں لکھتا ہوں اور وہ بہت حساس بھی ہے اور وہ شعبہ ہے عدلیہ کا یعنی پاکستان کا سب سے حساس ترین شعبہ
میں  اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ شروع شروع میں لاپرواہی سے بھی لکھ دیتا تھا 

اس دوران ایک واقعہ پیش آیا جب میں ایک سیشن جج کے پاس درخواست لیکر گیا کہ آپ کی عدالت میں ہرروز معذور افراد بھی پیش ہوتے ہیں ان کیلئے  ایک ایسی ڈھلوان سطح بنادیں جس کے ذریعے وہ وہیل چیئر سے  ان کی رسائی کورٹ تک ہوجائے خیر سیشن جج نے ہمیں عزت نہ دی تو ہم نے بھی اس کو عزت کے قابل نہ سمجھا اسی دوران میں نے سیشن جج کی کیفیت کے مطابق ایک بلاگ لکھا جس کا عنوان تھا "زندہ لاش"  اس بلاگ نے کراچی میں ہلچل مچادی کیونکہ کراچی جیسے شہر میں سیشن جج ایک بہت بڑی توپ چیز سمجھی جاتی ہے اور حاضر سیشن جج سے چھیڑخانی کیریئر کو تباہ کردیتی ہے   لیکن زندہ لاش میں موجود حقائق نے یہ بات ثابت کی کہ ہمارا مؤقف درست تھا
خیر مجھے اس وقت پہلی کامیابی ملی جب اس سیشن جج  کے جانے کے فوراً بعد ڈسٹرکٹ کورٹس شرقی کی عدالتوں میں باقاعدہ طور پر ڈھلوان سطح بنا کر اس قابل بنایا گیا کہ وہاں اب معذور افراد باآسانی گراؤنڈ فلور کی عدالتوں میں پیش ہوسکتے ہیں  یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جبکہ باقی اضلاع میں کام جاری ہے
میں نے جو بھی بلاگ لکھے وہ ذاتی مشاہدات پر مبنی تھے میرے پاس اس سے متعلق شواہد موجود  ہیں اسی دوران  میری غلطی کہ چند دوستوں کی معلومات پر بلاگ لکھے  جو بعد میں  ان کے مکرجانے  کی وجہ  سے بلاگ   کی ساکھ خراب ہوئی  لیکن انسان غلطی سے سیکھتا ہے
ہمارے عدالتی نظام میں ایک بری روایت موجود ہے کہ سیشن ججز کو ہایئکورٹ میں جسٹس لگایا جاتا ہے اور اکثر اوقات ان کو  کنفرم نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر تنزلی کردی جاتی ہے  جس سے عدالتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے    ایسے متاثرین کو ایک قسم کا موقع دیا جاتا ہے کہ چاچا جی آپ جسٹس کے لیئے اہل نہیں تھے ریٹائرمنٹ میں سال دوسال باقی ہیں  اب واپس جاکر سیشن کورٹس میں جتنی تباہی مچا سکتے ہو مچا لو دوسرے الفاظ میں رشوت لینے کی ایک  غیر اعلانیہ اجازت دی جاتی ہے
ہم نے ایسے بے شرموں کو جو جسٹس  کے عہدے پر کام کرنے کے بعد دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر تعیناتی کی ذلت برداشت کرتے ہیں  کی غیرت بیدار کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن یہ ہماری کامیابی ہے کہ اگر کوئی جسٹس ہایئکورٹ سے سیشن کورٹ میں واپس آتا ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ایک زندہ لاش واپس آرہی ہے  لوگ ایسے جج کو عزت نہیں دیتے اور وہ صرف ماہانہ تنخواہ وصول کرتا رہتا ہے
لوگ یوں بات کرتے ہیں کہ کون فلاں جو پہلے جسٹس تھا  کنفرم نہیں ہوا۔ دوبارہ سیشن جج بن کے واپس آرہا ہے ۔زندہ لاش کی صورت میں واپس آرہا ہے

میں نے ایک ذاتی مشاہدہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ عدالتی نظام میں تبدیلی کس طرح آسکتی ہے میرا مشاہدہ تھا کہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین   بنیادی اینٹ مجسٹریٹ ہے اگر مجسٹریٹ کی عدالت ٹھیک کام کرے گی تو فوجداری عدالتوں کا سارا نظام ہی ٹھیک ہوجائے گا اور یہی  مجسٹریٹ کی عدالت سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ مجسٹریٹس کے پاس معلومات پولیس آفیسر کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں  میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجسٹریٹس دل ہی دل میں  پولیس سے خوفزدہ ہوتے ہیں میں نے یہ بھی مطالعہ کیا کہ پولیس آفیسر مجسٹریٹ کو  کٹھ پتلی کی طرح نچاتے ہیں اور مجسٹریٹ وہی کرتا ہے جو پولیس چاہتی ہے پھر میں نے ایک نتیجہ اخذ کیا کہ مجسٹریٹ پولیس کا ذہنی ماتحت اور ذہنی غلام ہوتا ہے اس  بات پر کافی لے دے ہوئی لیکن میرے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد موجود ہیں  خیر پھر میں نے ایک بات کی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک میں عدالتی نظام موجود ہو ضلع کی سطح پر  ایک سیشن جج بیٹھتا ہو اور تھانہ ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے منسلک ہو اس کے باوجود وہاں پولیس ظلم کرتی ہو تشدد کرتی  یہ ناممکن ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا جب عدلیہ پولیس کے ماتحت ہو یا پولیس اور عدلیہ کی ملی بھگت ہو  اس بات پر بھی کافی سوالات اٹھائے گئے اور عوامی پذیرائی حاصل ہوئی


سول سوسائٹی نے ہمارے بلاگ کی بنیاد پر سوالات اٹھائے کہ آخر عدلیہ پولیس کے ساتھ مل کر ٹھوس شواہد کی عدم  موجودگی میں کیسے بے گناہوں کو جیل بھیج سکتی ہے  سول سوسائٹی کے حلقوں میں مجسٹریٹس اور پولیس کی پارٹنر شپ پر بھی ڈائیلاگ ہوئے اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ عدلیہ کی حمایت کے بغیر پولیس کسی بے گناہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا نہیں سکتی

لاء سوسائٹی پاکستان نامی بلاگ کو عوامی پذیرائی حاصل ہے  لیکن  سینئروکلاء کے حلقوں میں اس کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے  وجہ  صاف  ظاہر ہے کہ  میں  نے بہت سی  باتوں کو کھلم کھلا لکھا ہے جو ان کے کاروباری راز تھے

 مقتدر عدالتی حلقے اس پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں    اور کسی بھی بات کا سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے یہ ہماری کامیابی بھی ہے اور آزمائیش بھی کیونکہ اب  کوئی ایسی بات نہیں کی جاسکتی کہ جس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ اب بلاگ اپنا ایک مقام  بناچکا ہے  ایک ساکھ بناچکا ہے
ہمیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ کراچی میں ایک سپریم کورٹ کا جسٹس خفیہ طور پر چیمبر چلا رہا تھا اور کیس بک کرتا تھا میں نے اس پر بلاگ لکھ دیا جس کے بعد ایک بھونچال آگیا جس کا ہم نے سامنا کیا اس بلاگ پر شدید تنقید کی گئی مجھے کافی دھمکیاں ملیں   لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ  جسٹس  نے اپنا کالا دھندہ بند کیا افسوسناک طور پر کسی نے یہ نہیں کہا کہ  شواہد  غلط ہیں سب نے یہ کہا کہ جسٹس کی کردار کشی کی جارہی ہے
لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کو  بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہے شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ عدالتیں کیوں عوام کو انصاف نہیں فراہم کرپارہی ہیں   میرا یہ بلاگ ایک ایسی ڈائری ہے جس میں کورٹ میں پیش آنے والے واقعات کو  عوامی زبان میں لکھ دیا جاتا ہے آج ہمارے بلاگ ہی کی وجہ سے عدلیہ کا وہ چہرہ عوام کے سامنے ہے جو کبھی پیش نہیں کیا گیا آج سوشل میڈیا  کے توسط سے  لوگ جان گئے ہیں کہ اصل طاقتور ادارہ پولیس ہی ہے جس کے سامنے جج کی کرسی پر بیٹھے ہوئے مجسٹریٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے  وہ صرف  شور مچا سکتا ہے اس سے زیادہ کوئی  حیثیت  نہیں ہےجس کے بعد اب کچھ ججز نے زبان کھولنے کی ہمت کی ہے اب وہ کبھی کبھی پولیس والے سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس شخص کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے اب چند ججز کے اندر اتنی ہمت بھی پیدا ہوچکی ہے کہ   ڈرتے ڈرتے پولیس سے کیس پراپرٹی کے متعلق پوچھ لیتے ہیں یہ کہنے کی جرات پیدا کرلیتے ہیں کہ  ملزم سے جو برآمدگی ہوئی ہے پیش کی جائے  ورنہ پہلے ایسا کوئی تصور نہ تھا

اور اب چند ججز پولیس رپورٹ اور پولیس چالان کو پڑھنے کی زحمت کرلیتے ہیں   لیکن آج بھی  ننانوے فیصد مجسٹریٹ صاحبان پولیس رپورٹ پر انگوٹھا لگا کر کیس سماعت کیلئے منظور کرتے ہیں  اور پولیس کی بالادستی آج بھی قائم و دائم ہے

لاء سوسائٹی نے پہلی بار مجسٹریٹ کو یہ احساس دلایا کہ وہ لوگ پولیس سے طاقتور ہیں  وہ پولیس کے ماتحت نہیں ہیں اور پولیس کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کیلئے ہماری جدوجہد جاری ہے جاری رہے گی

کورٹ محرر ایک ایسا طاقتور پولیس آفیسر ہوتا ہے جس سے سیشن ججز بھی خوفزدہ رہتے ہیں کورٹ محرر پر ایک تفصیلی بلاگ  نے ملک گیر شہرت حاصل کی
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کا نوجوان وکیل ہم سے امید رکھتا ہے سینئرز کی امیدوں کی ہمیں جرورت بھی نہیں ہے
ہمارے بلاگ میں دادا  استاد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی  لیکن آج  کل وہ ہم سے نراش ہیں

موجودہ صورتحال میں ہم اپنے آپ کو آزمائیش کا شکار سمجھتے ہیں   کیونکہ  حلقہ احباب وسیع تر ہوچکا ہے بہت سے دوستوں کی خواہش ہوتی ہے کہ روزمرہ پیش آنے والے واقعات کو  بلاگ میں لکھا جائے میں اس حوالے سے واضح طور پر معذرت کرنا چاہتا ہوں  میں صرف ان واقعات کو لکھ سکتا ہوں جن کا میں خود عینی شاہد ہوں  اور میں اپنی بات سے کبھی نہیں مکرتا اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں نفع نقصان کی کبھی پروا ہی نہیں رہی
میں سندھ ہایئکورٹ کا شکر گزار ہوں جس نے ہماری تنقید کا تعمیری انداز میں جواب دیا 
آج اردو بلاگنگ سوشل میڈیا کے اندر ایک نئی طاقت بن کر ابھری ہے    ایک اردو بلاگر کا پیغام دور دور تک جارہا ہے بلکہ ایسے ایسے مقامات پر جارہا ہے جہاں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے  قارئین کی تعداد میں حالیہ دنوں میں بہت زیادہ اضافہ  ہوا ہے اس ساری جدوجہد میں بہت سے وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے ایسے وقت میں اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی جب اردو بلاگ کے حوالے سے بات کرنا بیوقوفی سمجھی جاتی تھی
کراچی میں ہونے والی  اردو سوشل میڈیا سمٹ نے اردو بلاگنگ اور اردو سوشل میڈیا کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے پورے ملک میں ایک بھونچال برپا ہے نئے نئے اردو لکھاری سامنے آرہے ہیں  دائرہ وسیع ہورہا ہے  اردو بلاگرز اپنا نیا مقام بنارہے ہیں  بلاگ پر تنقید اور تعریف کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے
اردو سوشل میڈیا ایک نئی سمت کی طرف گامزن ہے
ہر وہ شخص خراج تحسین کا مستحق ہے جس نے اردو   بلاگ کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کیا


Safiudin awan
03343093302
safilrf@gmail.com

No comments: