Powered By Blogger

Friday 29 May 2015

خواب ، جنوں اور تعبیر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن   شعبہ وکالت میں آنے کے بعدکافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے  سسٹم کا حصہ نہ بن سکے اوران کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی  باتیں ہم سنتے رہیں  پاکستان  میں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے کچھ عرصہ ہم نے ان کی کمی کو محسوس کیا  بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے  اور ہنستے بھی تھے کہ عجیب  پاغل تھا سسٹم کو بدلنے کی  بات کرتا تھا  بیوقوف  کہیں کا

 پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی اس نے کہا کہ وہ واپس آچکا ہے اور ملنا چاہتا ہے  پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال  میں  اس سے ملنے گیا اس کے ساتھ پورا دن رہا  اس کے حالات اچھے دکھائی دے رہے تھے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم اٹارنی بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور  لاء فرم بن چکی ہے  اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا  ان کو اپنے ججز پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ ان کو اپنے ایسے نظام پر بھروسہ ہے جو کرپشن کو پکڑنے کی صلاحیت  رکھتا ہے

 اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار  اور مضبوط ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے یہ ایم آئی ٹی جیسے ماموں بنانے کے نسخے صرف پاکستانیوں کی ایجاد ہیں  کیونکہ کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کے  ایم آئی ٹی سمیت سو بہانے ہوتے ہیں  وہاں ایم آئی ٹی نہیں ہے  لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے

اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا  ایسا جونئیر  جو جج ہو کرکرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں   وہاں عدلیہ  صرف عدلیہ ہے اور سب سے زیادہ ذمہ دار وکیل ہوتا ہے   وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ  کردیا جاتا ہے اس لیئے کوئی بھی وکیل اپنے کلائینٹ کے ساتھ برے سلوک کا سوچ بھی نہیں سکتا  اس حوالے سے کوئی رعایت ہی نہیں اگر ایک وکیل نے کیس لے لیا اور اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا  اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو پھر اس وکالت کا حق بھی نہیں ملتا


میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں ہیں ؟
 میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں وہاں کی ریگولیٹری اتھارٹیز اداروں کی شکل میں کام کرتی ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکستانی  عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے  لیکن مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں اور ان لوگوں سے ملتے ہیں  جن کو  تمہاری قابلیت پر شک تھا میرے دوست نے کہا کہ  کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا

میں نے کہا پتہ چلا کہ  "وہ"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانتے ہونگے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں  نوجوان وکلاء کے ساتھ بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے ویسے بھی بعض اوقات خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں
ہم اس دن ساتھ رہے اور شام کو میرا دوست رخصت ہوگیا
یہ تحریر پانچ سال  پرانی ہے

آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ
خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائیکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪12 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں؟
کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون ذمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو ذاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟
وکلاء  تنظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں

یہ تحریر پانچ سال  قبل لکھی گئی  تھی اس میں اب اتنا اضافہ کرلیا جائے کہ وکلاء کی عدلیہ سے وابستہ توقعات دم توڑ چکی ہیں


No comments: