Powered By Blogger

Tuesday 3 May 2016

وزنی دلیل تحریر صفی الدین اعوان

صاحب ایک   ہزار والا پاپا لگے گا کام ہوجائے گا
وکالت کے ابتدائی دن تھے  نئے نئے کالج سے فارغ التحصیل ہوکر دنیا بدلنے نکلے تھے اور ایمانداری کا ہیضہ پورے عروج  پر تھا ایک جاننے والے کا معمولی لڑائی جھگڑے کا کیس تھا  اور پولیس نے گرفتار کرکے عدالت کے زریعے جیل بھجوادیا تھا خیر کیس ملا ہم نے ضمانت کی درخواست داخل کی    جس عدالت میں کیس داخل کیا وہ جج بھی واقف  کار تھا ایمانداری تقاضہ کرتی تھی کہ اس سے رابطہ نہ کیا جائے اور میرٹ پر ضمانت لی جائے
خیر کتابیں کھول کے بیٹھ گئے جتنے کیس لاء دستیاب تھے سب تلاش کرکے  خوب تیاری کرکے مقررہ تاریخ پر نیا نیا سلوایا ہوا کالا کوٹ  اور  کالی ٹائی  لگاکر  عدالت پہنچ گئے ابھی جج صاحب کے آنے میں تاخیر تھی کہ  کورٹ  روم میں میرے ساتھ  ہی ایک  عجیب قسم کا  بے ڈھنگا قسم کا آدمی ساتھ آکر بیٹھ گیا  اور پوچھا جی وکیل صاحب ضمانت کی درخواست  آپ کی ہے میں نے  کہا جی ہاں  نئے نئے وکالت میں آئے ہیں  میں نے کہا جی
تو پھر کیا کرنا ہے  عجیب سے بے ڈھنگے آدمی  نے کیس کے حوالے سے میری رائے لی
میں نے کہا ظاہر ہے  امید رکھتا ہوں کہ میرٹ پر میرا کام ہوجائے گا اور ضمانت  مل جائے گی ویسے بھی  یہ معمولی سا کام ہے
عجیب غریب قسم کے آدمی نے کہا کہ  میں اس کورٹ کا سرکاری وکیل ہوں  ضمانت کا کیس کوئی معمولی نہیں ہوتا اس کو معمولی یا غیر معمولی بنانا پڑتا ہے  اور وہ ہم بناتے ہیں ۔جیسا کہ آج آپ کی ضمانت کی درخواست کے ساتھ  ہونے والا ہے وہ ہوبھی سکتی ہے نہیں بھی ہوسکتی  اگر آپ ایک ہزار روپے کا  ہرے رنگ کا  پاپا دے دیں تو  ضمانت منٹوں میں ہوجائے گی
میں نے کہا  مطلب یہ کہ  آپ مجھ سے رشوت مانگ رہے ہیں 
یہ سن کر سرکاری وکیل فوری طور  پر وہاں سے   ت سے تیتر ہوگیا
مجھے غصہ بہت شدید آیا کہ یہ کمبخت اس دھڑلے سے کیسے رشوت مانگ رہا ہے  وہ بھی صبح سویرے خیر کچھ دیر کے بعد کیس کی سماعت ہوئی سرکاری وکیل بھی تشریف لے آئے   میں نے جو بھی دلائل کے انبار لگانے تھے لگادیئے     سرکاری وکیل ساب مسکراتے رہے  آخر میں انہوں نے صرف ایک دلیل دی   کورٹ میں جو میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیا گیا ہے اس کی فائینل رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ۔ ایم ایل   او  نے سر پر آنے والے زخم  کی بھی رپورٹ  نہیں دی  اس لیئے مجھے لگتا ہے کہ فائینل رپورٹ آنے کے بعد اس کیس کی سیکشن ہی تبدیل ہوجائے گی  اور یہ کیس سیشن ٹرائل بھی بن سکتا ہے
یہ سن کر  مجسٹریٹ صاحب نے فائل نہایت ہی بے مروتی سے بند کی اور کہا وکیل صاحب اس اسٹیج پر میں یہ ضمانت کی درخواست نہیں سن سکتا آپ کو فائینل میڈیکل رپورٹ آنے تک انتظار کرنا ہوگا
یہ سن کر تو میرے تو میرے طوطے ہی اڑگئے ساری ایمانداری اور ایمانداری کا ہیضہ  اور نشہ ہرن ہوگیا

سرکاری وکیل صاحب باہر ملے  کہنے لگے جی وکیل صاحب کیا کرنا ہے ہزار والا پاپا ڈھیلا کردیں  اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ابھی حل ہوجائے گا خیر میں نے مسئلہ  حل کیا سرکاری وکیل مجھے لیکر دوبارہ کورٹ میں پیش ہوگیا اور کہا ساب  میں نے کیس کا جائزہ لیا ہے  گلی محلے کے بچے ہیں پڑوسی ہیں چھوٹا  موٹا جھگڑا ہے  کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے زخم بھی کچھ خاص نہیں ہے بچے ہیں جیل میں رہیں گے تو خراب ہونگے اس لیئے  قانون کے مطابق جو مناسب لگے وہ  فیصلہ کردیں  خیر جج صاحب نے ضمانت منظور کرلی  جان بچی لاکھوں پائے  خیر   اس دن کے بعد  ایمانداری سے توبہ تو نہیں کی لیکن کوشش کرتے ہیں کہ اگر ملزمان کی طرف سے وکیل ہوں تو  سرکاری وکیل سے ایک اچھی والی ملاقات ضرور کرتے ہیں  اور کرنی بھی چاہیئے
اچانک آجانے والی اس ٹھوکر سے سنبھلنے کے بعد میں نے اس ایشو پر مطالعہ کیا تو مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر پراسیکویشن ڈیپارٹمنٹ  اچھے انداز سے کام شروع کردے تو  کیسز میں کافی بہتری آئے گی
اس شکست کو میں نے اپنی طاقت بنایا اور کافی عرصے بعد یہی نکتہ ایک بہت ہی اہم ترین کیس میں اس وقت میرے کام آیا جب  کراچی کے ایک نامور وکیل نے ملزم کے وکیل کی  حیثیت سے دھواں دھار دلائل دیئے اسی دوران میرا کلائینٹ  یہ توقع کررہا تھا کہ میں  بھی اسی طریقے سے دھواں دھار دلائل دوں  جبکہ میں خاموش تھا اور سرکاری وکیل کو تو خاموش کروادیا گیا تھا
ملزم کے وکیل کے وزنی   دلائل کے بعد میں نے  وہ دلیل پیش کی جو  ایک سرکاری وکیل سے ایک ہزار روپے میں سیکھی تھی  بس میرے چار الفاظ نے وہ  سارے لمحات واپس کردیئے جن سے میں  چند سال پہلے وکالت کے ابتدائی دنوں میں گزرآیا تھا
اسی طرح مجسٹریٹ صاحب نے کورٹ کی فائل بند کی اور بڑی بے مروتی سے تاریخ دے دی  کہ وکیل صاحب فائینل رپورٹ آنے تک انتظار کریں  ۔  اگر فائینل رپورٹ میں سیکشن تبدیل ہوگئی  اور کیس سیشن ٹرائل میں تبدیل ہوگیا تو سب کیلئے مسائل ہونگے   اس طرح وکالت کے ابتدائی دنوں میں  جو کچھ سیکھا وہ ایک اہم موڑ پر کام آیا

سیکھنے کیلئے ایک عمر درکار ہوتی ہے ہم مانتے ہیں کہ عدالتوں میں کرپشن ہوتی ہے لیکن   اگر آپ محنت کرتے ہیں آپ سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں تو  کامیابی آپ کے قدم  چومتی ہے  لیکن حالیہ دنوں میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے سرکاری وکلاء کے دن  بھی بدل گئے ہیں اور  بہت کم اس قسم کی گھٹیا پریکٹس کرتے ہیں  شاید اس کی ایک وجہ تنخواہوں میں اضافہ بھی ہے

SAFIUDIN AWAN 
03343093302 

No comments: