Powered By Blogger

Saturday 6 June 2015

لگتا ہے پاکستان میں نام کا عدالتی نظام بھی موجود نہیں ٭٭٭ تحریر : صفی الدین اعوان



جس ملک میں صرف نام کا بھی عدالتی نظام ہوتو اس  ملک میں پولیس شہریوں پر تشدد اور ظلم نہیں کرسکتی

 سنہ 2009  ٹنڈو محمد خان سندھ پاکستان
ایک پاکستانی  عدالت ہی کے  مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک غریب  لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور روتے ہوئے  فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے دروخواست وصول نہیں کی اور سائل کو نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا  اور دونوں رجسٹر قبضے میں لیئے دونوں  رجسٹرمیں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ کسی بھی قسم کی  گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا  اور واقعہ رپورٹ کردیا  روزنامچے میں اپنی آمد کا اندراج کیا  اور دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا  اور اس سے یہ کام غلطی سے ہوا ہے آئیندہ ایسا نہیں ہوگا ایس ایچ کا تحریری  بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر  کرنے کا حکم دیا  افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے  اور ایس ایچ او کے خلاف  ایف  آئی رجسٹر کردی  سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی 
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں اور میرے بہت سے پریکٹسنگ وکلاء  ہماری اس قسم کی باتوں سے سخت الرجک ہیں  بہت بری لگتی  ہیں ایسی گندی باتیں ان کو
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا  فرشتہ  اور ایسا نامور  اور ایسا  جدی پشتی ایماندار کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ  اگر نام  لکھ دیا تو پھر ایک نئی  تحریک شروع ہوجاتی ہے کہ عدلیہ  کے خلاف  باتیں ہورہی  ہیں   مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے  صوبہ  سندھ  میں  پولیس راج کو چیلنج کیا تھا  ایک ایس ایچ  او کے خلاف  مقدمہ  درج کروایا تھا  تو دوستو اورساتھیو اس قسم  کے لوگوں کا کیا انجام ہونا چاہیئے  اس لیئے پہلے تو  ان کی اپنی بدلی کروائی گئی یعنی  تبدیلی کا آغاز ان ہی سے شروع ہوا  اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
جس ملک میں عدالتی نظام موجود ہو وہاں پولیس راج ممکن نہیں ہے جس شہر میں ایک سیشن جج کا وجود پایا جاتا ہو اور جس شہر میں تھانے کی حدود ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے منسلک ہو وہاں پولیس کس طرح عام شہریوں پر ظلم و تشدد کرسکتی ہے یہ کس طرح ممکن ہے  یہ ناممکن سی بات ہے یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عدلیہ نااہل ہو اور بے جان ہو جس ملک میں جج ایک ایس ایچ او کے ساتھ دوستی پر فخر کرتے ہوں وہاں عوام کا یہی حال ہوتا ہے

 پولیس تشدد اور ظلم و ستم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں نام کا بھی عدالتی نظام موجود نہیں  ہے


 کراچی سندھ ہایئکورٹ۔۔۔۔۔۔۔۔2011
پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کے ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم ہی ہیں لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت  اور آپ  کا جج ان کو بری نہ کرتی تو ہم کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس  کسی  شہری کو  کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا


Safiudin Awan 
03343093302

No comments: