Powered By Blogger

Saturday 20 June 2015

دادا استاد استادوں کا استاد ** تحریر صفی الدین اعوان

دادا استاد  استادوں کا استاد
دادا استاد کی اصل وجہ شہرت ان کی وہ بے مثال اداکاری ہے جس کے جوہر وہ کورٹ روم میں اکثر دکھاتے ہیں وہ اداکاری حقیقت سے اتنی قریب تر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے استاد ان کو اپنا استاد مانتے ہیں اور یہی وجہ شہرت ہے کہ ان کو دادا استاد کا لقب ملا دادا  نے یوں تو زندگی میں بے شمار کام کیئے لیکن تاریخ لینے میں جو ان کو مقام حاصل ہے وہ کسی اور استاد کو حاصل ہوہی نہیں سکتا۔ تاریخ لینے اور مقدمات کے التواء میں ان کے پاس ایگزیکٹ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے جس پر شعیب شیخ نے خود دستخط کیئے ہیں   اس طرح کی ڈگریوں سے استاد نے الماری بھر رکھی ہے  
ایک بار نئی سینئر سول جج صاحبہ آئیں تو ان کو دادا کی فن کاریوں کا پتہ چلا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ایسی کی تیسی ہے دادا استاد کی دیکھتی ہوں کراچی کے اس دادا استاد کو کیسے تاریخ لیتا ہے میری عدالت سے پیش کار نے بتایا کہ  میڈم استاد واقعی استاد ہے  اور استادوں کا استاد ہےکل  ہی ایک کیس لگا ہوا ہے استاد کا اس میں وہ مسلسل تاریخ لے رہا ہے کیس نہیں چلاتا   خاتون جج نے کہا کہ کل استاد کی ساری استادیاں نہ نکالیں تو پھر کہنا
مختصر یہ کہ استاد قابو نہ آیا مصروف تھے ہایئکورٹ میں  جونیئر تاریخ لیکر کھسک گیا اسی طرح تاریخیں چلتی رہیں
لیکن  ایک دن وہ  قسمت  سےتشریف لے ہی آئے  پیش کار نے  اشاروں میں بتایا کہ یہی دادا استاد ہے سینئر سول جج صاحبہ جو مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں استاد کو نظروں ہی نظروں میں تولا
دادا استاد ساری صورتحال سے بے خبر حاضری لگوا کر کھسکنے کی ہی لگے تھے کہ 
سینئر سول جج صاحبہ الرٹ ہوگئی مدعی مقدمہ نے بتایا کہ یہ مقدمہ کئی سال سے لٹکا ہوا ہے آج وکیل صاحب تشریف لے آئے ہیں  ان کے فائینل دلائل سن کر  اس کا فیصلہ کرہی دیں
دادا نے بہت بہانے بنائے لیکن جج صاحبہ  مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں  کہ قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں دادا کے سارے حربے سارے بہانے ساری چالیں ناکام ہوگئیں  کورٹ روم میں اور استاد بھی موجود تھےایک لمحے کیلئے دیگر استادوں کو محسوس ہوا کہ آج تو استاد پھنس  ہی گیا
آج تو کوئی بہانہ نہیں چلے گا ہرصورت میں مقدمہ چلانا ہی چلانا ہے آپ کو
ابھی بحث چل ہی رہی تھی کہ آج وہ کس وجہ سے مقدمہ نہیں چلارہے تو  اچانک مدعی خود   زور سے بول پڑا کہ وکیل صاحب   نے اپنی پارٹی سے پیسے لئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کیس نہیں چلارہے اور وکیل صاحب نے پیسے ہی اسی بات کے لیئے ہیں کہ وہ کیس نہیں چلائیں گے
یہ سن کر دادا استاد نے پیچھے مڑ کر مدعی مقدمہ کی طرف دیکھا  چشمہ اتارا ۔سامنے پڑے ٹیبل پر رکھا اور اپنی کرسی یوں بیٹھ گئے جیسے ان کو  مدعی کی بات سن کر شاک لگ گیا ہے  اور وہ شدید صدمے سے دوچار ہیں  
کورٹ روم میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ دادا کا بہر حال ایک مقام تو ہے
دادا استاد پانچ منٹ اسی طرح صدمے کی حالت میں سر پکڑ کر بیٹھے رہے کبھی چشمہ پہن لیتے کبھی اتار دیتے اور کبھی چشمہ اتار کر آنکھیں ملنا شروع کردیتے   یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان کا جسم  صدمے کی وجہ سے آہستہ آہستہ جھٹکے لے رہا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ ان کا بلڈ پریشر قابو سے باہر ہوچکا ہے
اچانک کھڑے ہوئے اور  بے بسی  کے انداز میں  کہا  جج صاحبہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج میری وکالت کے پچیس سالوں پر کسی نے پانی پھیر دیا ہے اس شخص نے یہ چند الفاظ بول کر میری زندگی کے وہ پچیس سال مجھ سے چھین لیئے ہیں  جو میں نے بہت مشکل سے بنائے تھے
پچیس سالوں میں آج تک کسی نے میرے متعلق ایسے الفاظ نہیں کہے اس شخص نے یہ الفاظ بول کر مجھے صحرا میں کھڑا کردیا ہے
کورٹ روم بھرا ہواتھا   اور ایک دم سناٹا چھایا ہوا تھا
کورٹ میں ایک ہی آواز بار بار گونج رہی تھی میری زندگی کے پچیس سال۔پچیس سال میری زندگی کے آج خاک میں مل گئے آج میں خالی ہاتھ کھڑا ہوں میرے اثاثہ لٹ چکا ہے انسان کے پاس ہوتا ہی کیا ہے میرا اثاثہ ہی کیا تھا  میرا کل اثاثہ ہی وہ پچیس سال تھے جو آج عدالت کے سامنے اس شخص نے لوٹ لیا ہے آج عدالتوں کے درودیوار نے بھی شرم سے سر جھکالیا ہے کیونکہ ایک شخص نے کھڑے کھڑے  میری ساکھ تباہ کردی
دادا استاد کبھی  صدمے سے بیٹھ جاتا کبھی کھڑا ہوجاتا کبھی کورٹ روم میں ہی چلنا شروع کردیتا  میری زندگی کے پچیس سال  برباد ہوگئے آج  ایک شخص نے چند الفاظ بول کر چھین لیئے ہیں میرے پاس تھا ہی کیا میرا کل اثاثہ پچیس سال ہی تو تھے میں نے دن رات ایک کرکے اپنا مقام بنایا جو کہ آج چھین لیا گیا ہے جونیئر نے پانی کا گلاس پیش کیا لیکن دادا استاد کو کہاں ہوش تھا کہ وہ پانی پیتے  
دادا کی آواز کھڑک سنگھ کی طرح گونج رہی تھی 
عدالت اندازا نہیں لگا سکتی کہ میں کس تکلیف سے گزر رہا ہوں کس قدر ازیت ناک ہوتا ہے اس شخص کیلئے جب اس سے اس کی زندگی کے پچیس قیمتی سال چھین لیئے جایئں
یہ کہہ کر دادا استاد چشمہ سامنے رکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے شاید وہ آنسو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے
جج صاحبہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ایسا کریں آج تاریخ لے لیں مقدمہ پھر چلالیں گے
دادا استاد نے کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جس شخص سے اس کی پیشہ ورانہ زندگی کے پچیس سال چھین لیئے جایئں اس کی اذیت کو کوئی محسوس نہیں کرسکتا جو مرضی آئے تاریخ دے دیں مجھے اب اپنی زندگی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی میرا دماغ کام ہی نہیں کررہا
خاتون جج صاحبہ نے  ایک ماہ کی تاریخ دے دی
دادا استاد خاموشی سے اٹھے پیچھے مڑکر مدعی مقدمہ کو ایک طنزیہ قسم کی بھرپور آنکھ ماری  خاتون جج صاحبہ کی طرف مسکرا کر دیکھااور  کورٹ روم سے باہر نکل گئے
 سینئر سول جج صاحبہ حیرت  سے دیکھتی رہ گئیں اور سب  ڈرامہ سمجھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گئیں
وہ دن آج کا دن  جج صاحبہ نے پورا زور لگالیا  مقدمہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور دادا استاد پھر کبھی اس کورٹ میں نظر بھی نہیں آئے

تحریر :: صفی الدین اعوان


No comments: