Powered By Blogger

Saturday 13 June 2015

جسٹس کے بیٹے کاکورٹ میں پہلا دن ۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان

یہ واقعہ مجھے ایک جسٹس کے بیٹے نے خود سنایا اس نے کہا کہ جب وہ تعلیم مکمل کرکے آیا تو کئی لاء کمپنیوں میں اپلائی کیا ایک لاء کمپنی نے انٹرویو کیا اور مجھے   جاب مل گئی پہلے ہی دن ایک بہت موٹی تازی فائل مجھے پکڑا دی گئی اور کہا گیا کہ بینکنگ کورٹ میں پیش ہونا ہے میں نے کہا اس فائل کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے بھی پورا ایک ماہ چاہیئے پہلے ہی دن اتنی بڑی ذمہ داری لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کرنا صرف کورٹ میں جاکر پیش ہوجانا ہے باقی کام منشی کرلے گا ڈرتے ڈرتے کورٹ میں پیش ہوا اسی دوران منشی نے پیش کار کو کان میں بتادیا کہ  یہ وکیل صاحب فلانے جسٹس کا بیٹا ہے  یہ سن کر پیش کار نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا جج صاحب کو  میرے متعلق بتایا یہ سن کر جج کی تو ہوا  کے ساتھ ساتھ  پشی بھی  نکل گئی فوری طور پر اپنے چیمبر میں گئے مجھے بلایا ڈبل ملائی مار کے  چائے پلائی  پاپاکی خیریت دریافت کی  سخت ناراض ہوئے کہ  پہلے کیوں نہیں  بتایا  کہ آپ جسٹس کے بیٹے ہو یہ کورٹس تو بنی ہی جسٹس صاحبان کے بیٹوں اور بھتیجوں کیلئے ہیں  ہم تو نوکر چاکر ہیں  
 پیش کار سے  میری فائل منگوائی  میری  وہ فائل جو صبح ہی کمپنی نے مجھے دی تھی جس کے متعلق مجھے کوئی معلومات ہی نہیں تھیں میری درخواست میں مجھے ایسا ریلیف ملاکہ مجھے خود نہیں پتا تھا پوری کورٹ کا اسٹاف آگے پیچھے بچھا جارہا تھا

یہ میرا لاء فرم میں پہلا پہلا دن تھا لیکن ایک ہفتے کے اندر اند ر میری اہمیت اس قدر بڑھ چکی تھی  کہ شہر  کی ہر بڑی لاء فرم لاکھوں روپے کے عوض میری خدمات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن میں شوپیش بن چکا تھا جب بھی کوئی کلایئنٹ آتا  کمپنی والے تعارف ضرور کرواتے کہ یہ فلانے جسٹس کا بیٹا ہے اس کے بعد فائل مجھے تھمادی جاتی جو میں کورٹ لیکر جاتا تو  وہ خود بخود دوڑنا شروع ہوجاتی کورٹ کے آرڈر خود دوڑتے دوڑتے میرے آفس پہنچ جاتے تھے

اگلے ایک سال کے دوران مجھے عقل آگئی اور میں نے اپنا چیمبر بنالیا
جس کے بعد ترقی کا نیا سلسلہ شروع ہوا ایک میں ہی جسٹس کا رشتے دار نہ تھا جسٹس صاحبان نے تو الگ دنیا ہی بسا رکھی تھی   جس کا واحد مقصد پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ تھا بار کے عہدے دار بھی میری مرضی سے آتے جاتے تھے اور میرے ذریعے بار بھی عدلیہ کی بغل بچہ بن چکی تھی بار کے تمام فیصلے بھی عدلیہ کی مرضی سے ہی ہوتے تھے اور عام وکیل بے چارا  بار کے صوفوں پر بیٹھ کر صرف ناقابل تشریح   زبان استعمال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتا تھا
میری ترقی کے راستے میں جو جج آیا اس کو پاپا نے ہٹا دیا بلکہ اٹھا کہ پٹخ دیا، یہاں تک کے اگر ہایئکورٹ میں کسی جسٹس نے بھی میری راہ میں کانٹا بچھانے کی کوشش کی تو وہ کانٹا نکال باہر کیا گیا میرے پاپا نے گھر  کے تہہ خانے میں لوہے کا بہت بڑا صندوق رکھا ہوا ہے ہم باپ بیٹا جو کماتے ہیں وہ اسی تہہ خانے میں لاکر چھپادیتے ہیں  میرا سب سے بڑا کاروباری پارٹنر میرا باپ ہے اس کے باوجود کے  لالچی بڈھے کے مرنے کے بعد سب کچھ میرا ہی ہے وہ مجھ سے حصہ لینا نہیں بھولتا اور مال لیتے وقت یہ کہتا ہے کہ بیٹا  لینے کیلئے دینا سیکھو  اگر کمائے ہوئے مال سے دینا نہیں سیکھوگے تو کبھی ترقی نہیں کرپاؤگے میں تمہاری تربیت کررہا ہوں آج مجھے مال دے رہے ہو کل کسی انکل  جج کو اسی طرح مال دوگے اور اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتے ہی رہوگے سیشن ججز اور ٹکے ٹکے کے مجسٹریٹس میں تو اتنی ہمت ہی نہیں کہ  میری  لاءکمپنی کے خلاف کوئی آرڈر کرنے کا سوچ بھی سکیں  ویسے بھی میں سیشن کورٹ نہیں جاتا  میں سیشن کورٹ جانا اپنی توہین سمجھتا ہوں ایک دس ہزار والا جونئیر  رکھا ہوا ہے جو سیشن کورٹ جاتا ہے اور میرا نام لیتا ہے وہی کافی ہے اور جو   "اڑی " کرتا ہے اس کے خلاف انکوائری شروع ہوجاتی ہے جس کی فائل بھی میرے آفس سے 
کھلتی اور بند ہوتی ہے ویسے اس کی  نوبت کم ہی آتی ہے بس نام ہی کافی ہے
یہی وجہ ہے کہ اب میں کروڑوں میں نہیں اربوں میں کھیلتا ہوں اور شہر کے مافیاز کے ساتھ مل کر بڑے بڑے گیم کھیلتا ہوں 
ہایئکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی کنفرمیشن کا راستہ تو میرے آفس کی فائلوں سے گزر کرجاتا ہے ایڈیشنل جسٹس تو میرا خاص نشانہ ہوتے  ہیں  جو میری بات نہیں مانتا اس کو کنفرم بھی نہیں کیا جاتا
جو بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عدلیہ کے متعلق لکھا ہے وہ  واقعی بے وقوف ہیں یہ پاکستان نہیں  پڑوسی ملک افغانستان کی عدلیہ کے متعلق ہے اگر کسی کو کوئی مماثلت نظر آتی ہے تو وہ خود ذمے دار ہے کیونکہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا



No comments: