مقدمات میں التواء کے ماہر دادا استادوں کے تاریخ لینے کیلئے ججز کو چکر دینے کے قصے سنانا
ویسے تو بہت مزے کی بات لگتی ہے لیکن ایسے
استادوں کا سامنا کرنا بڑا ہی دل گردے کاکام ہے کیونکہ اس قسم کے دادا استاد
اخلاقی طور پر بھی غریب ہوتے ہیں
گزشتہ دنوں بچوں کی تحویل کے ایک مقدمے میں ایک دادا استاد
کا سامنا کرنا پڑا میں ایک غریب اور مظلوم عورت کے مقدمے میں بطور وکیل پیش ہوا
مظلوم عورت کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے جس کے بعد سسر اور اس کے بیٹوں نے عورت کو جائیداد کے حق سے محروم کرکے مرحوم
شوہر کے تمام کاروبار پر قبضہ کرکے اور اس کے بچوں کو چھین لینے کے بعد اس کو گھر سے نکال باہر کیا جس کے بعد اس عورت
نے عدالت کا دروازہ بجایا اس دوران تین سال تک جو ظلم اس عورت پر عدالت
میں ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے لیکن تین سال کے بعد اس عورت نے دستگیر لیگل
ایڈ سینٹر سے قانونی امداد طلب کی
کورٹ فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ایک دادا استاد اس کیس میں پیش ہورہا ہے جو صرف
جج کو چکر پر چکر دے کر تاریخ لیکر نکل
جاتا ہے اور عورت اپنے بچوں کی ملاقات کی
حسرت ہی دل میں لیکر رہ جاتی ہے تاریخ لینے کیلئے بالکل سادہ سا فارمولہ کے دوروپے
کے کاغذ پر ایک درخواست لکھ کر عدالت میں دے
دی کہ مدعا علیہ بیمار ہے کورٹ میں
پیش نہیں ہوسکتا اس لیئے بچوں سے میٹنگ
اگلی تاریخ پر کروا دی جائے گی اس حوالے سے کورٹ
میں کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش نہیں کیا نہ کورٹس طلب کرتی ہیں
گزشتہ تاریخ پر بھی یہ بہانہ تھا کہ سسر صاحب خود بیمار ہیں
اس لیئے وہ عدالت تشریف نہیں لائے اور بچے بھی نہیں آئے
جس کے بعد ہم نے ذہن بنالیا کہ اس تاریخ پر بھی سسر جی نہیں
آئیں گے اور یہی ہوا
دادا نے ایک پوتے
کو عدالت بھیجا دوسرے کو جان بوجھ کے نہیں بھیجا دادا استاد نے التوا کی درخواست
دے دی جس کو چیلنج کرتے ہوئے میری مؤکلہ
نے بھی یہ درخواست کورٹ میں حلف نامے کے
ساتھ جمع کروادی کہ مخالف پارٹی بچے سمیت
کورٹ کی حدود میں موجود ہے اور جان بوجھ کر کورٹ میں پیش نہیں کررہی اس بات کی وہ خود عینی شاہد ہے جس پر دادا استاد خوب
سٹپٹائے اور کہا کہ وہ اگلی تاریخ پر تاریخی آبجیکشن داخل کریں گے عورت
جھوٹ بول رہی ہے ایسا کچھ نہیں ہے اگرچہ
جج صاحب نے التواء کی درخواست کو قبول
کرتے ہوئے ایک بے توقیر قسم کا عدالتی فیصلہ کیا کہ اگلی سماعت پر لازمی بچے کو
پیش کرنا ظاہر ہے اس قسم کے بے توقیر عدالتی فیصلوں کی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں
ہوتی
اسی دوران ہم نے بچوں کی تعلیم کے معاملے کو اٹھا دیا کہ
بچوں کے دادا جی بچوں کے باپ کی پندرہ
کروڑ روپے مالیت کے فلیٹ گھر اور کاروبار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں وہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بچوں کو تعلیم کے
حق سے صرف اس لئے محروم کرنے پر تل گئے ہیں کہ کل وہ ان کے اثاثہ جات پر بھی قبضہ
کرسکیں اس لیئے کورٹ مخالف پارٹی کو ہدایت جاری کرے کہ وہ ان کی
تعلیم کیلئے فوری اقدامات کریں
اس بات پر بھی دادا استاد خوب سٹپٹائے لیکن بولے کچھ نہیں اور کہا کہ ان کا تجربہ اگلی تاریخ پر بولے گا
لیکن مجھے حیرت ہے عدالت پر بھی کہ اتنے عرصے سے مقدمہ
عدالت میں زیرسماعت ہے بچے کسی اسکول میں نہیں پڑھتے اس کے باوجود عدالت نے کبھی
بچوں کے موجودہ سرپرست جو کہ کروڑ پتی
ہیں کو ایسا کوئی حکم نامہ کبھی جاری نہیں کیا کہ وہ بچوں کی تعلیم
اور تربیت کیلئے اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس قسم کے معاملات میں بچوں کی اصل سرپرست
تو کورٹ ہی ہوتی ہے اور موجودہ کیس میں
اکیسویں صدی کے اس دور میں اگر بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں تو ذمہ دار عدالت ہے
ٹھیک ہے کہ عدالتوں میں رش ہوتا ہے لیکن پھر بھی کچھ بنیادی اصول ہر جج کو ہروقت
ذہن میں رکھنے ضروری ہوتے ہیں
دادا استاد جب کورٹ سے جارہے تھے تو کافی غصے میں دکھائی دیتے
تھے وہ مجھے نظروں ہی نظروں میں تول کر گئے
ابھی یہ کہانی ادھوری ہے کیونکہ اس کیس میں میری تو پہلی ہی سماعت تھی نئے جج
صاحب کی بھی پہلی ہی سماعت تھی امید ہے کہ
معاملہ اچھا رہے گا جھوٹ کا علاج جھوٹ ہی
سے کیا جاسکتا ہے
No comments:
Post a Comment