Powered By Blogger

Sunday 28 June 2015

بچوں کی تحویل کا مقدمہ ایک نامکمل کہانی تحریر صفی الدین اعوان

مقدمات میں التواء کے ماہر دادا استادوں کے  تاریخ لینے کیلئے ججز کو چکر دینے کے قصے سنانا ویسے تو بہت مزے کی بات  لگتی ہے لیکن ایسے استادوں کا سامنا کرنا بڑا ہی دل گردے کاکام ہے کیونکہ اس قسم کے دادا استاد اخلاقی طور پر بھی غریب ہوتے ہیں
گزشتہ دنوں بچوں کی تحویل کے ایک مقدمے میں ایک دادا استاد کا سامنا کرنا پڑا میں ایک غریب اور مظلوم عورت کے مقدمے میں بطور وکیل پیش ہوا
مظلوم عورت کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے  جس کے بعد سسر اور اس کے بیٹوں  نے عورت کو جائیداد کے حق سے محروم کرکے مرحوم شوہر کے تمام کاروبار پر قبضہ کرکے اور اس کے بچوں کو چھین لینے کے بعد  اس کو گھر سے نکال باہر کیا جس کے بعد اس عورت نے عدالت کا دروازہ بجایا اس دوران تین سال تک جو ظلم اس عورت پر  عدالت  میں ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے لیکن تین سال کے بعد اس عورت نے دستگیر لیگل ایڈ سینٹر سے قانونی امداد طلب کی
کورٹ فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ  ایک دادا استاد اس کیس میں پیش ہورہا ہے جو صرف جج کو چکر پر چکر دے کر  تاریخ لیکر نکل جاتا ہے  اور عورت اپنے بچوں کی ملاقات کی حسرت ہی دل میں لیکر رہ جاتی ہے تاریخ لینے کیلئے بالکل سادہ سا فارمولہ کے دوروپے کے کاغذ پر ایک درخواست لکھ کر عدالت میں دے  دی کہ  مدعا علیہ بیمار ہے کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتا اس لیئے  بچوں سے میٹنگ اگلی تاریخ پر کروا دی جائے گی اس حوالے سے کورٹ  میں کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش نہیں کیا  نہ کورٹس طلب کرتی ہیں
گزشتہ تاریخ پر بھی یہ بہانہ تھا کہ سسر صاحب خود بیمار ہیں اس لیئے وہ عدالت تشریف نہیں لائے اور بچے بھی نہیں آئے
جس کے بعد ہم نے ذہن بنالیا کہ اس تاریخ پر بھی سسر جی نہیں آئیں گے اور یہی ہوا
دادا  نے ایک پوتے کو عدالت بھیجا دوسرے کو جان بوجھ کے نہیں بھیجا دادا استاد نے التوا کی درخواست دے دی جس کو چیلنج کرتے ہوئے  میری مؤکلہ نے  بھی یہ درخواست کورٹ میں حلف نامے کے ساتھ جمع کروادی کہ  مخالف پارٹی بچے سمیت کورٹ کی حدود میں موجود ہے اور جان بوجھ کر کورٹ میں پیش نہیں کررہی  اس بات کی   وہ خود عینی شاہد ہے جس پر دادا استاد خوب سٹپٹائے اور کہا کہ وہ اگلی تاریخ پر تاریخی آبجیکشن داخل کریں گے  عورت  جھوٹ  بول رہی ہے ایسا کچھ نہیں ہے اگرچہ جج صاحب نے التواء کی درخواست  کو قبول کرتے ہوئے ایک بے توقیر قسم کا عدالتی فیصلہ کیا کہ اگلی سماعت پر لازمی بچے کو پیش کرنا ظاہر ہے اس قسم کے بے توقیر عدالتی فیصلوں کی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی
اسی دوران ہم نے بچوں کی تعلیم کے معاملے کو اٹھا دیا کہ بچوں کے   دادا جی بچوں کے باپ کی پندرہ کروڑ روپے مالیت کے فلیٹ گھر اور کاروبار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں  وہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بچوں کو تعلیم کے حق سے صرف اس لئے محروم کرنے پر تل گئے ہیں کہ کل وہ ان کے اثاثہ جات پر بھی قبضہ کرسکیں  اس لیئے کورٹ   مخالف پارٹی کو ہدایت جاری کرے کہ وہ ان کی تعلیم کیلئے فوری اقدامات کریں
اس بات پر بھی دادا استاد خوب سٹپٹائے  لیکن بولے کچھ نہیں  اور کہا کہ ان کا تجربہ اگلی تاریخ پر بولے گا
لیکن مجھے حیرت ہے عدالت پر بھی کہ اتنے عرصے سے مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے بچے کسی اسکول میں نہیں پڑھتے اس کے باوجود عدالت نے کبھی بچوں کے موجودہ سرپرست  جو کہ  کروڑ پتی  ہیں کو  ایسا کوئی حکم  نامہ کبھی جاری نہیں کیا کہ وہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس قسم کے معاملات میں بچوں کی اصل سرپرست تو کورٹ ہی ہوتی ہے  اور موجودہ کیس میں اکیسویں صدی کے اس دور میں اگر بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں تو ذمہ دار عدالت ہے ٹھیک ہے کہ عدالتوں میں رش ہوتا ہے لیکن پھر بھی کچھ بنیادی اصول ہر جج کو ہروقت ذہن میں رکھنے ضروری ہوتے ہیں  
دادا استاد جب کورٹ سے جارہے تھے تو کافی غصے میں دکھائی دیتے تھے وہ مجھے نظروں ہی نظروں میں تول کر گئے
ابھی یہ کہانی ادھوری ہے کیونکہ  اس کیس میں میری تو پہلی ہی سماعت تھی نئے جج صاحب کی بھی پہلی ہی سماعت تھی  امید ہے کہ معاملہ اچھا رہے گا  جھوٹ کا علاج جھوٹ ہی سے کیا جاسکتا ہے  


No comments: