Powered By Blogger

Monday 9 May 2016

کیا وکالت ممکن ہے ؟ تحریر صفی الدین اعوان






میرے ایک اچھے دوست ہیں    کراچی میں ناکام ترین وکالت کے بعد  بیرون ملک  شفٹ ہوئے اور برطانیہ میں مختصر تعلیم کے بعد  وہاں وکالت کی ابتداء کی  پاکستانی مائینڈ سیٹ سے میں نے یہ سوچا کہ بیوقوف انسان مزید بے وقوفی کے موڈ میں ہے اگر ایک  بار وکالت میں  ناکام رہا تو کوئی اور کاروبار کرلیتا

یاد رہے کہ پاکستان میں بھرپور قسمت آزمائی کے باوجود وہ وکالت  میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا اس حوالے سے میں نے ایک بلاگ   لکھا تھا  خواب جنوں اور تعبیر جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے
 http://tlspk.blogspot.com/2015/05/blog-post_29.html
  کل جب میں نے ایک بلاگ لکھا تو اس میں دو قابل اعتراض الفاظ بھی لکھ دیئے   (بھڑوت اور دلالت) اس پر  ہمارے سنجیدہ دوستوں نے شدید تنقید کی چند دوستوں نے اس کو بازاری زبان قرار دیا اس کے علاوہ عدلیہ میں موجود قابل احترام ججز نے بھی ان دو الفاظ کو بہت برا محسوس کیا اور اس کو سخت ترین قابل اعتراض اور مکمل بازاری زبان قرار دیا

اسی دوران میرے دوست کا ایک تفصیلی فون آیا اس نے بتایا کہ  اپنے وطن سے کسے محبت نہیں ہوتی اور مجھ سمیت کتنے ہی پاکستانی وکلاء ملک چھوڑدینے پر کیوں مجبور ہوئے اس نے کہا کہ برطانیہ کی عدالت میں کریمینل کیس رجسٹر ہوجانے کا مطلب یقینی سزا ہے کتنا ہی اچھے سے اچھا وکیل کرلو وہ سزا سے نہیں  بچاسکتا وہاں وکیل کا یہ کام ہی نہیں کہ   سزا سے بچائے بلکہ وکیل کاکام یہ ہے کہ ملزم کے جائز حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانا فئیر ٹرائیل کے عمل کو یقینی بنانا اور بعض اوقات ایسا راستہ بتانا جس کے بعد کم سے کم سزا ملے۔ کیوں وہاں کی عدالت عدالت ہی ہے وہاں  عدالت عدالت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ۔ وکیل قابل ہوتے ہیں وہاں کے سسٹم کے مطابق   جج بھی جج ہی ہوتا ہے

اور ملزم کو یہ مشورہ  دینا کہ  اس کی سزا کس طریقے سے کم ہوگی لیکن سزا ضرور لگے کیوں کہ شواہد مضبوط ہوتے ہیں  عدالت میں کیس رجسٹر کروانا ناممکن کی حد تک مشکل ہے یہی وجہ ہے کسی  بے گناہ کو پھنسائے جانے کا کوئی امکان  نہیں ہوتا۔ جج  صرف جج  ہی ہوتا ہے  کامن سینس رکھتا ہے وہ نان سینس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں وکالت صرف وکالت ہی کانام ہے وہاں وکالت کے نام پر سیٹنگ کرنا ناممکن کام ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پولیس کسی کو جھوٹے مقدمے میں  نامزد  کرکے لے آئے  ۔۔۔۔۔ ناممکن  ناممکن ۔۔ کیوں اگر ایسا ہو بھی جائے تو عدالتی افسران اپنی ذمہ داری سرانجام دیں گے اور پولیس والے بچ نہیں سکیں گے ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں  ڈسٹرکٹ کورٹس میں وکالت کرناناممکن ہے کیونکہ یہاں وکالت کم ہی کچھ اور کام زیادہ ہورہا ہے  ۔۔۔ اور اعلٰی سطح پر بھی  وکالت کسی حد تک موجود ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔

کل ایک قابل احترام جسٹس صاحب نے ان دوالفاظ کی وجہ سے فون پر ہی کلاس   لے لی ۔۔۔۔ اب میں کیا کہوں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ  گزشتہ دنوں پورے صوبے میں ججز کی نااہلی کی بنیاد پر ہڑتالیں کی گئی تھیں ۔۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مجسٹریٹ سطح کے جوڈیشل افسر   نااہل ہیں ۔۔۔ اور کیا یہ بھی سچ نہیں کہ پولیس نے  بے شمار  بے گناہوں کو جھوٹے مقدمات  میں نامزد کیا اور مجسٹریٹ یہ اہلیت نہیں رکھتے تھے کہ پولیس رپورٹ پر اعتراض کرسکیں ۔۔جو لوگ اس وقت نااہل عدالتی افسران کی نااہلی کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے  جن سیشن ججز کو بازاری زبان پر اعتراض ہے وہ صرف ایک سوال کا جواب  دے دیں کہ جب مجسٹریٹ کی عدالت سے کیس آپ کی عدالت  میں ٹرانسفر ہوتا ہے تو ٹرائیل کیوں نہیں ہوپاتا اور گواہ کیوں لاپتا ہوتے ہیں اور  ہر کیس میں ملزم  شک کا فائدہ پاکر باعزت بری کیوں قرار پاتے ہیں

کیا پھر بھی لوگ بضد ہیں کہ یہاں وکالت ہوتی ہے وکالت تو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کا نام ہے  برطانیہ نامی جس ملک میں وکالت ہورہی ہے وہاں پاکستان کی عدالتوں کے ناکام ترین وکلاء کامیاب ترین وکلاء کیوں بن جاتے ہیں اور یہاں کے کامیاب وہاں   کیوں نہیں کامیاب ہوسکتے کیوں کہ جو کام یہاں ہوتا ہے وہ وہاں نہیں ہوسکتا  آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں جو وکیل  کامیاب نہیں ہوسکتا وہ برطانیہ کا ٹیکس دینے والا قابل احترام شہری کیسے بن جاتا ہے  میں اپنے الفاظ ہروقت  واپس لینے کیلئے تیار ہوں   پہلے  کوئی یہ بات تو ثابت کرکے دے کہ یہاں وکالت ہوتی ہے

گزشتہ سال ایک  ریمانڈ میں پیش ہوا ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں ملزم پر  صرف یہ الزام تھا کہ اس نے ایک لڑکی کو اغواہ  کیا ہے
لڑکی پیش ہوئی ملزم  ہتھکڑی میں تھا ۔ لڑکی نے مجسٹریٹ کی عدالت   میں بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی  ہے اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا یہ شخص جو میرے سامنے کھڑا ہے جس پر میرے اغوا کا الزام ہے وہ بے گناہ ہے خدارا اس کی ہتھکڑی کھول دو۔۔یہ میرا شوہر ہے ۔۔۔  بشیرےجج صاحب نے  اس کے بعد ملزم کو اس لڑکی کے اغواہ کے الزام میں  جیل بھیجنے کا حکم دیا ۔۔ جس نے بیان دیا تھا کہ اس کو تو کسی نے اغوا کیا ہی نہیں ۔۔ ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوا ۔۔ ہم نے اعتراض کیا کہ ایک بے گناہ کو کیسے جیل بھیج سکتے ہیں جس لڑکی کو اغوا کیا گیا ہے اس نے صاف  بول دیا ہے کہ ملزم بے گناہ ہے  نکاح نامہ  پیش کردیا گیا ہے    ایسا نہیں ہونے دیں گے ہم فائل پھاڑ دیں گے خیر نئے آنے والے سارے  چھکے  جج ہڑتال پر جارہے تھے   کہ وکلاء  جج کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں  ۔۔  رجسٹرار ساب  بھی   گرتے پڑتے  ہانپتے  کانپتے  بھاگتے ہوئے پہنچ گئے کہ جج کے ساتھ وکیل ذیادتی  کررہے ہیں کسی نہ کسی طرح معاملہ ٹھنڈا ہوا ملزم  ہفتہ جیل کی گرم ہوا کھاتا رہا   بشیرے جج کی نااہلی کی سزا ایک مظلوم  بے گناہ انسان کو ملی  پھر  جج  صاحب  نے اس کو ضمانت پر رہا کیا  گیا یہ الگ بات ہے کہ اس بار ذاتی ضمانت پر ملزم کو رہا کیا گیا  کیونکہ پھر عدلیہ کا وقار خطرے میں تھا ،، سیشن جج تک نے کہا کہ وکیل ساب یہ آرڈر بالکل ٹھیک ہے   اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کیا ان حالات میں ایسے نااہل ججز کے سامنے وکالت کرنا ممکن ہے  ؟ اس واقعہ  کا مصدقہ  ریکارڈ  میرے پاس موجود ہے جن دوالفاظ پر  اعتراض ہے صرف وہی ہوسکتا ہے
جس عدلیہ کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سطح کی دوسرے نمبر کی سینئر ترین جج کو چوبیس سال کی سروس کے بعد  بھی  یہ پتا نہ  ہوکہ کہ حبس بے جا کیا ہوتا ہے  اور اس کو حبس بے جا کی درخواست پر آرڈر لکھنے نہ آتا ہو وہاں وکالت کی بات کرنا وکالت کے ساتھ ظلم ہے  ایسی عدالتوں میں وکالت کی بات کرنا وکالت کی توہین ہے
دنیا پیتل دی

صفی الدین اعوان
03343093302

No comments: