گزشتہ دنوں کراچی شہر کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے
اتوار کے دن قتل کے مقدمے کا ایک ریمانڈ پیش کیا گیا تفتیشی افسر ایک اندھے قتل کی
تفتیش کررہا تھا اور دو گرفتار ملزمان کا وہ دودفعہ ریمانڈ لے چکا تھا اور وہ
تیسری بار ریمانڈ لینے آیا تو جوڈیشل مجسٹریٹ نے مقدمے کی تفصیلات بتائیں تو کراچی کے بادشاہ
تفتیشی افسر نے روایتی انداز میں ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ قتل کا مقدمہ
ہے آپ تو ویسے بھی مجسٹریٹ ہو یہ تو ویسے بھی بھی سیشن ٹرائل ہے مجسٹریٹ کی عدالت
کا تو ٹرائل ہی نہیں ہے آپ اس میں زیادہ مداخلت مت کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ قتل کی ایف آئی
آر ہے جو درخت کے ساتھ بھی باندھ دی جائے تو درخت
سوکھ جاتا ہے ویسے بھی آپ ڈیوٹی
مجسٹریٹ ہو یہ آپ کی ذمہ داری بھی نہیں ہے
تفتیشی افسر کی
بدقسمتی اور ملزم کی خوش قسمتی کے مجسٹریٹ صاحب صاحب علم تھے میرٹ پر ان کا تقرر
ہوا تھا اور مجسٹریٹ کے اختیارات کے متعلق ان کو علم تھا
مجسٹریٹ صاحب نے
ریمانڈ پیپر ایک طرف کیئے اور کہا کہ ملزمان کے خلاف آپ نے کیا شواہد جمع کیئے ہیں
کتنے گواہوں کے بیان ریکارڈ کیئے ہیں اور ملزمان کے خلاف کتنے گواہ موجود ہیں
تفتیشی افسر کی
ایک ہی رٹ تھی کہ تفتیش چل رہی ہے قتل کی ایف آئی آر ہے اس مسئلے پر چھیڑخانی نہ کریں جس طریقے سے
ہمیشہ مجسٹریٹ صاحبان اڑی کیئے بغیر
ریمانڈ دے دیتے ہیں آپ بھی دے دیں
ٹرائل کورٹ میں سب ثابت ہوجائے گا
ویسے بھی یہ قتل کا مقدمہ ہے خیر جوڈیشل مجسٹریٹ نے تمام شواہد کا مطالعہ
کرنے کے بعد ملزم کی رہائی کا حکم دیا
اگرچہ یہ ایک
مجسٹریٹ کا ایک انفرادی فعل ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی کراچی جیسے شہر میں کسی مجسٹریٹ نے تو یہ ہمت
کی کہ تفتیشی افسران اور پولیس کے سامنے سرجھکاکر کام کرنے کی بجائے ان کی رائے سے
اختلاف کرنے کی جرات کی
میں یہ بات دعوے
سے کہتا ہوں کہ اگر جوڈیشل مجسٹریٹ کی سیٹ پر میرٹ پر لوگ بٹھا دیئے جائیں تو
پورے سندھ سے آدھے مقدمات خود ہی
ختم ہوجائیں گے کسی پولیس والے کو ہمت نہیں ہوگی کہ کسی بے گناہ
کو کسی جھوٹے مقدمے میں نامزد کرکے جیل کی
سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر کسی کا مستقبل
تباہ نہیں کرسکے گا اور نتیجہ یہی نکلے گا
کہ جس کے خلاف پولیس چالان منظور ہوگا وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا ایسے فضول ٹرائل
کا کیا فائدہ جس کے اختتام پر ملزم کو باعزت بری کردیا جائے خراج تحسین ہے اس
جوڈیشل مجسٹریٹ کو جس نے پولیس افسر کی
رائے سے اختلاف کیا اس کیس کے حالات
واقعات اور دیگر شواہد بعض وجوہات کی
بنیاد پر تبدیل کرکے آپ کے سامنے کورٹ آرڈر کی ایک جھلک مندرجہ ذیل ہے
بنیاد پر تبدیل کرکے آپ کے سامنے کورٹ آرڈر کی ایک جھلک مندرجہ ذیل ہے
S.I-P Muhammad Feeroz Khan
of New Karachi Industrial. Area has produced custody of accused Murtaza Ali @ Sajid in a blind FIR for grant
of 3rd time police custody remand.
2. Heard
I.O, in person and perused the record.
3. The
I.O submits that on 10.08.2012, complainant Asghar Baloch registered FIR
against unknown persons which remained under investigation, but neither I.O
could arrest any accused nor submitted interim challan. Further he submits that accused Murtaza Ali @ Sajid was
arrested by police of Sir Syed in another case and on 26.08.2012, he without
collecting any evidence against accused in any form made his arrest in this
case and produced him for remand. The court has granted police custody remand
till today but neither he could collect any evidence nor record statement U/s
161 Cr.P.C of any witness till today. He has given such statement in writing
that still he could not collect evidence against accused but want to get
legalized detention of accused from the court U/s 167 Cr.P.C.
4. Under
the law, one can not be arrested without any evidence, reasonable suspicion or
justifiable ground. The I.O namely Feeroz Khan has devil daringly arrested
person in a blind FIR without collecting any evidence. Not only accused has
been arrested without any justifiable ground but since 26.08.2012, the I.O has
not collected any evidence in any form even hearsay evidence but he want to get
detention legalize U/s 167 Cr.P.C. Such act of police is prime facie illegal and is in contravention of guaranteed
constitutional rights. The liberty of a citizen is precious. One cannot be
deprived by the law enforcers even for one hour without justifiable reasons.
The conduct of SIP Feroze Khan shows that he has changed his status from law
enforcer to law breaker, therefore, he is warned to be careful in future and
safeguard the fundamental rights of citizens.
5. With
above observations, the application under section 167 Cr.PC. merits no
consideration which stand rejected. I.O is directed to release accused at
liberty in this case on taking bond for sum of Rs: 1,00,000.00 if any tangible
evidence comes against accused, such report may be made to the court for
appropriate orders.
Announced in
open court.
Given
under my hand and seal o f this court, this the 3rd day of
September, 2012.
میں صرف یہی کہوں گا کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی امید ہے باقی ججز بھی پولیس کی رائے سے اختلاف کرکے روایات کو بدل دیں دے گے
صفی الدین اعوان
03343093302
No comments:
Post a Comment