Powered By Blogger

Friday 24 June 2016

یہ میرے سر کا درد نہیں ہے تحریر صفی الدین


یہ ماضی قریب ہی کی تو بات ہے   راولپنڈی کے ایک سرکاری افسر نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال باہر کیا اور دودھ پیتے بچے دینے سے بھی انکار کردیا   بیوی کا تعلق کراچی  سے تھا  وہ بچوں کے بغیر ہی کراچی پہنچ گئی اور اگلے دن ہی اس نے کراچی میں ہم سے رابطہ کیا  اس وقت سید وقار شاہ  شہید  نے مشورہ دیا کہ چیف جسٹس پاکستان کےانسانی حقوق سیل میں درخواست دے دیں  کیونکہ اب معاملہ راولپنڈی کا ہے  کراچی سے وہاں آنے جانے کے اخراجات  اتنے زیادہ ہیں کہ کسی بھی وکیل کیلئے وہاں جانا ممکن نہیں اور یہ عورت غریب بھی ہے ہم نے ایک سادہ  کاغذ پر درخواست لکھی اور چیف جسٹس پاکستان کے انسانی حقوق سیل کو ارسا ل کردی
درخواست موصول ہونے کے بعد ہی چیف صاحب نے اس کو پٹیشن میں تبدیل کرکے  سیشن جج راولپنڈی کو ارسال کی اور صرف  دودن کے بعد ہی اس  عورت کو سیشن جج راولپنڈی نے فون کرکے بتایا کہ آپ کے شوہر کو پولیس نے پابند کیا ہے کہ وہ  دودن کے بعد بچے کے ساتھ  کورٹ میں پیش ہوجائے جس کے بعد اسی دن وہ عورت  بزریعہ بس راولپنڈی روانہ ہوئی  جہاں عدالت میں اس کے کیس کی سماعت ہوئی اور دودھ پیتا بچہ اس مظلوم ماں کے حوالے کردیا گیا 
یہ اس وقت  کی بات ہے جب افتخار محمد چوہدری صاحب  چیف جسٹس پاکستان تھے اور پاکستان کی تاریخ میں غیر روایتی طور پر لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی گئی
اب ہم آتے  ہیں موجودہ حالات کی طرف  ایک ماں سے  لاہور میں بچہ چھین لیا گیا بچے کا باپ   چند دن کے بچے کو کراچی لیکر آتا ہے ۔ ماں غریب تھی کراچی آنے کی سکت نہیں تھی جس کے بعد ایک فلاحی ادارے نے اس کی کراچی آمدورفت کے اخراجات برداشت کیئے وہ عورت  چھ  جون  کو کراچی پہنچتی ہے   فلاحی ادارے کے توسط سے ہم سے رابطہ کرتی ہے   اگلے دن اس کی درخواست کراچی کے ضلع سینٹرل کی عدالت میں نادرا کے کمپیوٹرائزڈ حلف نامے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے جس کو سیشن جج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت  میں سیشن جج ٹرانسفر کردیتی ہیں  جس عدالت میں پٹیشن ٹرانسفر کی جاتی ہے  وہ  تعطیلات کی وجہ سے سیٹ پر موجود نہیں ہوتا اور تاخیر کی وجہ سے ہم پٹیشنر کو گھر روانہ کردیتے ہیں  کیونکہ نادرا کے کمپیوٹرائزڈ حلف نامے کی وجہ سے  آج کل کم ہی نوبت پیش آتی ہے کہ  پٹیشنر کو  ذاتی طور پر بھی پیش کیا جائے  یہ درخواست لنک جج کی عدالت میں پیش کی جاتی لنک جج صاحب فرماتے ہیں کہ ایڈوکیٹ  اور پٹیشنر  دونوں کو پیش کیا جائے
اگلے دن  پٹیشنر کو پیش کیا جاتا ہے  جج صاحب کے سامنے دلائل پیش کیئے جاتے ہیں   ۔ لیکن دلائل تو وہاں پیش کرنے کا فائدہ ہوتا ہے جہاں جج کی سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص قانون کی تھوڑی بہت شدھ بدھ رکھتا ہو   بدقسمتی سے جس جج کے سامنے یہ کیس پیش ہوا اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ  حبس بے کیا ہوتی ہے؟  اس پر کتنا  ایمرجنسی نوعیت کا آرڈر پاس کیا جاتا ہے  اور اس کے کیا قانونی تقاضے ہیں  کچھ بھی تو پتہ نہیں تھا
جج صاحب نے  آٹھ دن بعد سماعت کی تاخیر مقرر کی  ہم نے کہا کہ ساب یہ عورت لاہور سے آئی ہے اس کی رہایئش کے مسائل ہیں روزانہ کے اخراجات  ہیں   دوسرا یہ کہ  حبس بے جا کے  متعلق جو قواعد و ضوابط ہیں  اس کے مطابق آپ پولیس کو  چوبیس گھنٹے کا فوری نوٹس کریں  صاحب نے  انگلش کا ایک  جملہ کہا میں لنک جج ہوں
Its Not My Headache
خیر وہ لاہور سے آئی ہوئی عورت آٹھ دن کراچی مزید ذلیل و خوار ہوتی رہی جس کے بعد عدالت میں پیش ہوئے تو ایک مزید نیا انکشاف ہوا کہ  جج صاحب نے تو پولیس کو نوٹس ہی نہیں کیا  ۔۔۔۔۔۔۔۔نوٹس  کیوں نہیں  کیا یہ بھی ایک سوالیہ نشان  ہے اور وہ بھی چھٹیاں گزارنے اندرون سندھ چلے گئے ہیں جس کے بعد  جج ذیشان اختر صاحب نے دودن کا نوٹس پولیس کو کیا اور دوسماعت کے بعد اس کیس کا فیصلہ ہوگیا لیکن ایک نااہل انسان کی نااہلی کی وجہ سے  لاہور سے آئی ہوئی ایک غریب اور مظلوم عورت بیس دن تک کراچی کی ٹوٹی  پھوٹی  سڑکوں  پر ذلیل وخوار گھومتی رہی  اگر اس سیٹ پر راولپنڈی کے اس سیشن جج کی طرح کوئی اہل انسان بیٹھا ہوتا تو وہ عورت نوجون  دوہزار سولہ کو اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ لاہور میں اپنے گھر میں  موجود ہوتی

میرے صرف چند سوالات ہیں  کسی بھی پوسٹ پر صحیح شخص کو بٹھا دیا جائے تو آدھے سے زیادہ مسائل خود ہی حل ہوجاتے ہیں  مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کسی ایسی سیٹ پر بٹھادیا جاتا ہے جو اس سیٹ کے اہل نہیں ہوتا
صوبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے پورے پاکستان میں یہاں کمپیوٹرائزڈ عدالتی نظام کا آغاز ہوا کیا یہ بات ہمارے لیئے اعزاز کی بات نہیں کہ  یہاں کورٹ کی ڈائری تک آن لائن ہے  اس سے زیادہ کیا شفافیت ہوگی لیکن کیا کمپیوٹرائزڈ کردینے سے مسائل حل ہوجائیں گے  کیا عدالتوں میں نیا فرنیچر دے دینے سے مسائل حل ہوجائیں گے کیا   عدالتوں میں لال رنگ کا کپڑا باندھ دینے سے عوام کو انصاف مل جائے گا
جب عدالت میں بیٹھا ہوا جج  ایک نااہل انسان ہوگا  تو انصاف کی فراہمی ناممکن ہوگی  ایک ناہل انسان مجسٹریٹ بن کر کتنے سال تک غلط فیصلے کرتا رہا ہوگا عوام کو کتنا  پریشان کیا ہوگا بعد ازاں سینیر سول جج کی حیثیت سے اس نے عوام پر کیا ظلم ڈھائے ہونگے  اور اب ظلم کی حد یہ کہ ایسے نااہل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج  لگادیا گیا   جس  کی عدالت کا پٹے والا اس سے زیادہ  قانون  جانتا ہے
  اس سارے معاملے میں قصور وار کون ہے  وہ نااہل قصور وار ہے  جس کو عدالتی کام اور قانون کا بالکل بھی نہیں پتہ یا وہ اتھارٹی جس نے ایسے نااہل کومنتخب کیا اور دوبار پروموشن دی
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ  وہ اتھارٹی  زیادہ ذمہ دار ہے جو نااہلی کو جرم نہیں سمجھتی اور نااہلوں اور سفارشیوں کو پروموشن دیتی ہے  
ہماری کمپیوٹرائزڈ عدلیہ کیلئے مزید ظلم کی بات یہ بھی ہے کہ  جس کیس کی میں نشاندہی کررہا ہوں اس  میں غیر قانونی طور پر کورٹ کی دو ڈائریاں ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں  جس سے کمپیوٹرائزڈ عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے سوال یہ ہے کہ  ان  دوکورٹ  ڈایئریوں کو آن لائن کیوں  نہیں کیا گیا  اور مزید یہ کہ جب ہم نے کورٹ سے سرٹیفائڈ ڈائریاں طلب کی ہیں تو سارا آن لائن ریکارڈ پراسرار طور پر غائب ہوگیا ہے   جس سے کمپیوٹرائزڈ عدلیہ کی ساکھ مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے
 اس کا ذمہ دار واضح طور پر کورٹ اسٹاف ہے

میں سندھ ہایئکورٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس پورے معاملے کا نوٹس لیا جائے
جج صاحب نے صحیح کہا تھا کہ یہ اس کے سرکادرد نہیں ہے یہ کس کے سرکا درد ہے اس کا فیصلہ اب خود  
سندھ ہایئکورٹ کرے کہ یہ سر کادرد کیا ہوتا ہے  کیوں ہوتا ہے  اور اس کا علاج کیا کیا ہے
میرا سندھ ہایئکورٹ سے مطالبہ ہے کہ یہ دھڑا دھڑ  نااہل ججز کی پروموشن کا سلسلہ جو گزشتہ کچھ عرصے سے جاری ہے وہ فوری طور پر بند کیا جائے اور ججز کی پروموشن کیلئے کسی قاعدہ قانون کا اجراء کیا جائے 
جس قسم کے نالائق  اورنااہل  مجسٹریٹ اور سینئر سول ججز صرف اور صرف سینیارٹی کی بنیاد پر  دھڑا دھڑ دھڑا دھڑ  پروموٹ کیئے جارہے ہیں اس سے تو یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ آئیندہ آنے والے سالوں میں ہایئکورٹ کے اندر جو جسٹس ڈسٹرکٹ کورٹس سے پروموٹ ہوکر آئیں گے وہ   آنے والے سالوں کے اندر عدلیہ کا جو حشر نشر کریں گے اس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے   
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سیٹ کتنی اہم ہوتی اور میرٹ کا معیار کتنا سخت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  سندھ ہایئکورٹ گزشتہ کئی سال سے سیٹیں اناؤنس کرتی ہے لیکن مطلوبہ معیار کے  امیدوار نہ ملنے کی وجہ سے صرف چند لوگ ہی تاحل منتخب ہوسکے ہیں  جن میں سے بھی زیادہ تر ججز ہی تھے وکلاء کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ اہلیت کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتے 
 دوسری طرف پراسرار قسم کے پروموشنز کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کئی ایسے لوگ  اس دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی پوسٹ پر فائز ہوئے ہیں  جن کا اگر وہی این ٹی ایس  لیا جائے جو ماضی قریب میں وکلاء سے لیا گیا تھا تو شاید کئی سفارشی 20 نمبر بھی نہ حاصل کرسکیں 
یہ وہی لوگ ہیں جن کو ایڈیشنل جج بناتے وقت میرٹ کا معیار کیا مقرر کیا گیا تھا یہ بات صاف ظاہر ہوچکی
ہے کہ  جان بوجھ کر وکلاء کو منتخب نہیں کیا گیا اور ایسے لوگوں کو پروموشن دے دی گئی ہے  جن کی قابلیت کا تماشا پوری دنیا دیکھ رہی ہے  

No comments: