Powered By Blogger

Saturday 4 June 2016

نااہلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چیلنج تحریر :: صفی الدین

  
گر کسی جج کے آرڈر میں کوئی نقص ہوتو اس کی دووجوہات ہوسکتی ہیں
پہلی وجہ  حسن ظن سے کام لیکر یہ ہوسکتی ہے کہ اس  جج صاحب کے اندر علم کی کمی ہے اور وہ کمی وقت کے ساتھ ساتھ پوری ہوجائےگی    یہ سندھ ہایئکورٹ سمیت دنیا بھر کی عدالتوں کا مؤقف ہے
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آرڈر  رشوت لیکر لکھا گیا
پہلی وجہ ایک مخصوص عرصے تک قابل معافی ہے لیکن اس کے بعد پہلی وجہ بھی ناقابل معافی بن جاتی ہے  کیونکہ ایک مقررہ اور مخصوص مدت تک جب سیکھنے کا عمل مکمل نہ ہوتو پھر یہی تصورکرلیاجاتا ہے کہ  جج صاحب اس سیٹ پر بیٹھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے  اس لیئے ان کو فارغ کردیا جاتا ہے جبکہ دوسری وجہ کی تو معافی نہیں ہے
نااہل ججز  کی فراغت کیلئے تو  برٹش دور میں پالیسی بالکل واضح تھی اور ایک معمول کا حصہ تھی   میری ناقص معلومات کے مطابق اس کیلئے دوسال کا عرصہ مقرر تھا اور جو اہلیت ثابت نہ کرپاتا وہ عہدے  کا اہل نہ رہتا    اگرچہ سندھ ہایئکورٹ نے بدعنوان اور نااہل ججز کی ایک کثیر تعداد کو فارغ کردیا ہے جو کہ خوش آئیند ہے  لیکن اس کیلئے باقاعدہ پالیسی موجود نہیں ہے   ۔۔ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ سندھ کی سینئر ترین ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جو مجسٹریٹ سے پروموٹ ہوکر سینئر سول جج اور سینئر سول جج سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  کے عہدے تک پہنچی ہیں  آج ان کی کورٹ میں بحیثیت جج سروس کو چوبیس سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن نااہلی کا یہ عالم ہے کہ حبس بے جا کی درخواست پر حکم جاری کرنے کا طریقہ کار نہیں معلوم   ان  کو چوبیس سال بعد بھی نہیں پتا کہ یہ حبس  بے جا کیا چیز ہوتی ہے  ان کے خیال  میں  حبس بے جا چترال میں  پیدا ہونے والی کسی  سبزی کانام  ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ  عدلیہ نااہلی کے حوالے سے کس قدر مشکل حالات سے گزررہی ہے
سندھ ہایئکورٹ مجسٹریٹس کی سیلیکشن  کافی شفاف طریقے سے کرتی ہے این ٹی ایس کے زریعے ابتدائی ذہانت کی جانچ ہوتی ہے جس کے بعد تحریری امتحان  پاس کیا جاتا ہے جو کہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے اس  کے بعد بذریعہ انٹرویو  ذہانت جانچنے کے بعد  امیدوار کو منتخب کرلیا جاتا ہے
جب ہم وکالت کے شعبے میں آئے تو حالات بدترین تھے۔ ایک عجیب سا خوف وہراس تھا ۔  صرف ذاتی تعلق  چاپلوسی سے کام ہوتا تھا۔ اور ہر سطح کے جج وکلاء کو جان بوجھ کر تنگ کرنا فرض سمجھتے تھے ۔
پھر وکلاء تحریک کا آغاز ہوا اور  ذہن بدل گئے ۔ حالات ویسے کے ویسے ہی رہے۔
بدلے ہوئے حالات کے ساتھ نئے ججز کی تقرریاں  بظاہر شفاف طریقے سے کی گئیں   امید تھی کہ نئے لوگ جو میرٹ پر آئے تھے اچھا کام کریں گے  اس میں کوئی شک نہیں کہ کام کی رفتار تیز ہوئی ہے رویہ تبدیل ہوا ہے   کرخت رویہ ختم ہوا جبکہ توہین آمیز لہجے میں  بات کرنے کی کسی میں ہمت نہ کل تھی نہ آج ہے ۔  لیکن اگر کسی وکیل سے جج توہین آمیز لہجے میں  بات کرتا ہے اور وہ برداشت کرتا ہے تو یہ کسی بھی وکیل کی ذاتی کمزوری ہے
بدقسمتی سے سندھ ہایئکورٹ نے سیلیکشن  کے دوران ناتجربہ کار لوگوں کو ترجیح دی۔  وقت کے ساتھ ساتھ لوگ تجربہ حاصل نہ کرسکے    اسی دوران سندھ ہایئکورٹ نے ایسے ججز کو تیزی سے فارغ کیا جن کی شہرت اچھی نہیں تھی ۔اور وہ کرپشن  میں ملوث  تھے ۔کرپشن کا عنصر بہت تیزی سے کم ہوا  ہے   نئے ججز کی اکثریت رشوت نہیں لیتی ہے
لیکن  نااہلی ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آچکی ہے ۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ جو لوگ شفاف طریقے سے آئے  ان میں سے کئی ایسے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت جرم کیا ہوتا ہے کیونکہ وہ 
لوگ کبھی وکیل رہے ہی نہیں 
مجسٹریٹس کی اکثریت  بے گناہوں کو جیل بھیجنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتی   اسی طرح اکثریت کو پولیس رپورٹ کی سمجھ ہی نہیں آتی
موجودہ صورتحال میں صرف ایک ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ نااہلی  کا ہے  اور یہ دن بدن بہت بڑا مسئلہ  بنتا جارہا ہے   ایک مجسٹریٹ صاحب  جن کی سروس کو  چار سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے  گزشتہ دنوں ایک فیملی مقدمے میں یکطرفہ ڈگری اس مدعا علیہ کے حق میں جاری کردی  جو کبھی عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا  گزشتہ دنوں کراچی کے ضلع ویسٹ میں سارا دن تماشا بنارہا جب  ایک معمولی نوعیت کے قابل ضمانت جرم میں جج صاحب یہ فیصلہ ہی نہیں کرپارہے تھے کہ ملزم کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے بعد ازاں اکثریت کے مشورے سے ملزم کو رہا کیا گیا  اس  طرح کے بے شمار واقعات پیش آرہے ہیں   جن کا تعلق ججز کی نااہلی سے ہے  اور بے شمار قصے کہانیاں گردش کرتی پھر رہی ہیں   کراچی بار ایسوسی ایشن نے ان واقعات کے خلاف مہم بھی شروع کی کئی جس کے بعد  ہایئکورٹ سے مذاکرات کے بعد  یہ فیصلہ ہوا کہ تجاویز پیش کی جائینگی  جن پر سندھ ہایئکورٹ عمل کرے گی رولز تبدیل کیئے جائیں گے

لیکن یہاں ایک سوال مزید جنم لے رہا ہے کہ ججز کی سیلیکشن  پانچ ہایئکورٹ کے جسٹس صاحبان پر مشتمل ایک سیلیکشن بورڈ نے کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ حالات میں  ان  تمام جسٹس صاحبان کی  اپنی  ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے کیونکہ اگر ان کی نظر میں یہ میرٹ تھا تو میرٹ پر آنے والوں کی اکثریت نااہل کیوں ثابت ہوئی ہے یا ان  لوگوں نے غیر ذمہ داری سے سیلیکشن کی   اس پر ایک نئی بحث چل رہی ہے کہ کیا سندھ ہایئکورٹ   کی سیلیکشن   کے نتیجے میں جس میرٹ نے جنم لیا وہ بدترین ججز ثابت ہوئے اور ان سینکڑوں   نااہل افراد کا انجام کیا ہوگا کیونکہ جس نے دوسال کے عرصے میں کام نہیں سیکھا وہ قیامت تک نہیں سیکھ سکتا  یا کہیں ایسا تو نہیں کہ سیلیکشن  شفاف نہیں تھی اور سفارشی بھرتی کیئے گئے  سندھ ہایئکورٹ آئینی طور پر صرف دوسال تک   کسی بھی جج کی حمایت کرسکتی ہے کہ وہ سیکھنے کے عمل سے گزررہا ہے   اور جو  جج دوسال  کا عرصہ گزار کر بھی    نااہلی  کا شکار ہیں  ان کو تو ٹریننگ  کیلئے  بھی وقت  نہیں دیا جاسکتا لیکن ان کو سیکھنے کیلئے قیامت تک کا وقت دینا پاکستانی عوام کے ساتھ زیادتی ہے جن کے  ٹیکس کے پیسے سے  عدلیہ کے اخراجات پورے کیئے جاتے ہیں
سندھ  بار کونسل  اور کراچی بار سمیت تمام وکلاء گروپس  کو فوری طور پر یہ چاہیئے کہ جن ججز کے خلاف نااہلی کی شکایات ہیں  ان کے خلاف کمیٹی تشکیل دے کر  کراچی سمیت پورے سندھ سے متنازعہ آرڈرز کی مصدقہ کاپیاں لیکر  سندھ ہایئکورٹ  میں داخل کرکے  ان  تمام ججز کی اہلیت کو چیلنج کیا جائے جن کی تعیناتی  کو دوسال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے  اسی طرح پروموشن پر فوری طور پر  پابندی عائد کروائی جائے کیونکہ ناہلوں کی فوج کی ایک پوری سفارشی بٹالین کو  پروموشن دینے کی سازش کی جارہی ہے جس کے بعد جو صورتحال پیدا ہونے والی  ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا

 سندھ ہایئکورٹ نااہلی کے مسئلے کا حل تلاش کررہی ہے بارایسوسی ایشن کو چاہیئے کہ اپنا کردار اداکریں 





No comments: