Powered By Blogger

Thursday 11 August 2016

چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کے نام ایک کھلا خط تحریر صفی الدین اعوان

   محترم  جنا ب چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ


جناب اعلٰی
دوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل سے جنگ کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو وہ قوم سے ایک ہی سوال کرتا تھا کہ کیا برطانیہ کی عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں  قوم کی طرف سے جواب ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں
چرچل جواب دیتا تھا کہ جب تک اس ملک کی عدالتیں شہریوں کو انصاف فراہم کررہی ہیں اس وقت تک  کوئی قوم برطانیہ کو شکست نہیں دے سکتی ۔۔ اور یہ بات سچ ثابت ہوئی  
حبس بے جا ایک مشہور زمانہ   ضابطہ ہے قانون کا ایک عام طالبعلم اور ایک عام وکیل بھی جانتا ہے کہ حبس بے جا کی رٹ کیا ہوتی ہے
لیکن یہ اعزاز صرف سندھ ہایئکورٹ کو حاصل ہے کہ   گزشتہ دنوں  یہ بات سامنے آئی کہ ایک چوبیس سال کی سروس کرنے والی اور ڈبل پروموشن حاصل کرکے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ایک جج صاحبہ کو یہ نہیں پتا تھا کہ حبس بے جا کیا ہوتی ہے
اسی طرح ایک  چودہ سال کی سروس کرنے والے ایڈیشنل  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو  بھی حبس بے جا کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ حقیقت ہرلحاظ سے شرمناک  اور افسوسناک ہے لیکن اس میں ان دونوں ججز کا کیا قصور؟
قصور تو ان نااہلوں کا ہے جنہوں نے اپنے جیسے ان نااہلوں کو  ایک بار نہیں دوبار پروموشن دی
گزشتہ دنوں ہی یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو ججز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سلیکشن کیلئے این ٹی ایس کے امتحانات میں وکلاء کے ساتھ   گزشتہ چھ سال سے شریک ہوکر بار بار فیل ہوتے رہے ہیں ان کو پروموشن کمیٹی نے ڈبل پروموشن دے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا کر  اس ملک میں سول وار اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کردی ہے
سیلیکشن کمیٹی کے وہ ممبران جنہوں نے این ٹی ایس فیل ججز کو پروموٹ کیا بلاشبہ وہ اس   قوم کے مجرم ہیں جن کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اس ملک کو یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو یہ پتا  ہی نہیں کہ حبس بے کی رٹ کیا ہوتی ہے
دوسری طرف سندھ ہایئکورٹ نے ایک بار پھر میرٹ کی دھجیاں اڑا کر اسی  پروموشن بورڈ کے ممبران کے زریعے جو اس صوبے کے عوام کو دھوکہ دے کر نااہل ججز کو عدلیہ پر مسلط کرکے اس ملک میں سول وار اور خانہ جنگی کی بنیاد رکھ چکے ہیں وہ دوبارہ  میرٹ کا جنازہ نکال کر  ڈرامہ رچانے کا پروگرام بنا چکے ہیں
سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے جاری کردہ  اشتہار میں یہ بات کہیں بھی نہیں لکھی ہوئی ہے کہ عدالتی نظام میں این ٹی ایس فیل سفارشی اور نااہل ججز کو نوازنے اور ان کو دوبار پروموشن دینے کے بعد  اس وقت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی کتنی سیٹیں خالی ہیں  سوال یہ ہے کہ جب تمام سیٹوں پر این ٹی ایس میں فیل ہونے والے نااہلوں کی فوج بٹھا دی گئی ہے تو پھر یہ این ٹی ایس کا ڈرامہ کیوں رچایا جارہا ہے کیوں لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کررہے ہو
ملک میں آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے لیکن ایک نہیں ایک ہزار آپریشن ضرب عضب کروالیئے جایئں  جب تک عدالتی نظام میں موجود نااہلوں  کے خلاف  آپریشن ضرب عضب کرکے اہل ججز عدلیہ میں تعینات کرکے ان کے زریعے ملزمان کو سزا دینے کا کوئی نظام نہیں بنایا جاتا اس وقت تک سارے  ضرب عضب اور فوجی آپریشن بے کار ہیں دوسری طرف سندھ ہایئکورٹ نے نااہل ججز کو تعینات کرکے اس ملک میں سول وار کی راہ ہموار کردی ہے دوسری طرف چیف جسٹس پاکستان نے تسلیم کیا کہ  نوے فیصد ملزمان عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اگرچہ چیف صاحب نے ملبہ پراسیکیوشن  پر ڈال دیا ہے لیکن  جن ججز کو  حبس بے جا کے ضابطے کا علم نہیں وہ کسی ملزم کو سزا کیا سنائیں گے اور پراسیکیوشن یا  جھوٹا مقدمہ بنانے والے تفتیشی افسر کے خلاف کیا کاروائی کریں گے وہ صرف تھوک کے حساب سے صرف ملزمان کو رہا ہی کرکے ملبہ پراسیکیوشن پر ہی ڈال سکتے ہیں  
اس پس منظر میں چیف جسٹس ہایئکورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طورپر  اخبارات میں اشتہار دے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیٹوں کی تعداد اناؤنس کی جائے تاکہ شفافیت قائم ہو
ہم چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں  گزشتہ چھ سال کے دوران جو ججز این ٹی ایس  کے امتحانات میں شریک ہوکر فیل ہوتے رہے ہیں ان کا ریکارڈ طلب کرکے اس ریکارڈ کی روشنی میں تمام پروموشن کو  کالعدم قرار دیا جائے اور ان نااہلوں کو برطرف کیا جائے  اور نااہل  پروموشن بورڈ میں شامل ان تمام قابل احترام جسٹس صاحبان کے خلاف پورے احترام کے ساتھ  ان کے ریفرنس بنا کر جوڈیشل کمیشن میں  بھیجا جائے

ججز کو پروموشن  دینے   کیلئے کریمینل  کیسز میں  ڈسپوزل پالیسی کو فوری طور پر ڈسپوز کیا جائے اس پالیسی کو واش روم میں فلیش کردیں اور پروموشن کو   ججز کی کارکردگی سے مشروط کردیں  کہ کتنے کیسز میں ملزمان کو سزا دی اور جھوٹے مقدمات بنانے والے کتنے تفتیشی افسران  کے خلاف مقدمات قائم کیئے  یہ پروموشن کا معیار ہونا چاہیئے  اسی طرح پروموشن کیلئے ڈیپارٹمینٹل ٹیسٹ ہونا چاہیئے
ہم چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں  صوبائی سیلیکشن بورڈ توڑ دیاجائے  اور  صاف ستھرے اجلے کردار  اور باضمیر افراد پر مشتمل جسٹس صاحبان   کو سیلیکشن بورڈ  میں شامل کیا جائے
 چیف جسٹس صاحب اگر این ٹی ایس فیل ججز کو دو بار پروموشن دینے کے عمل میں اگر آپ خود بھی شریک ہیں تو اصولی طور پر پاکستان کی مظلوم عوام سے معافی مانگ کر آپ کو اپنے عہدے سے استعفٰی دے دینا چاہیئے  کیونکہ نااہل ججز کو عدالتوں میں تعینات کرکے  نہ صرف صوبہ سندھ کے عدالتی نظام پر ضرب کاری لگا کر ایک خودکش حملہ کردیا ہے بلکہ  انصاف کے نظام کو تباہ  و برباد کردینے کے بعد   پاکستان میں سول وار اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کردی ہے  اور یہ آپریشن ضرب عضب کو بھی ناکام بنانے کی کامیاب سازش ہے
سابق صوبائی سلیکشن بورڈ کے چیئرمین   جسٹس مشیر عالم نے خود کہا تھا کہ نااہلوں کو جج لگانے سے بہتر ہے کہ کسی کو جج لگایا ہی نہیں جائے 
لیکن کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے کہ  جسٹس مشیر عالم سابق چیئر مین صوبائی سیلیکشن بورڈ نے جن لوگوں کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سیٹ کیلئے نا اہل قرار دیا تھا آج  وہ سب کے سب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج بن چکے ہیں  اور جس جسٹس مشیر عالم کی زیر نگرانی این ٹی ایس کے امتحان میں شریک ججز  نمایاں نمبروں سے فیل ہوگئے  تھے ان میں سے نوے فیصد ججز کو سینیارٹی کا بہانہ  بناکر  پروموشن دے دی گئی ہے   اس سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جسٹس مشیر عالم صاحب نے پورے صوبے سے جو صرف تین ہیرے تلاش کیئے تھے ان کے میرٹ کا یہ عالم تھا کہ  ان  میں سے دوججز  بنیادی قابلیت کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے یعنی بنیادی شرط یہ تھی کہ  امتحان  میں شرکت  کیلئے جج کی چھ سال کی سروس ہونا ضروری تھی لیکن سفارش اتنی  بڑی تھی کہ قواعد وضوابط توڑ کر ان کی دھجیاں اڑانے کے بعد اس جج کو کامیاب قرار دیا گیا  جس ہیرے کو پورے صوبے سے میرٹ  کی بنیاد پر تلاش کیا گیا  اس کی  سروس صرف چار سال تھی  اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  کرپشن کس  بدمعاشی  اور غنڈہ  گردی  سے کی جاتی ہے اور آج وہ ہیرا صوبہ سندھ میں سروس ہی نہیں کررہا وہ اسلام آباد بیٹھا ہے  اور تنخواہ سندھ ہایئکورٹ ادا کرتی ہے  
اس پر میں نے ایک بلاگ بھی لکھا تھا کہ  " پپا اوتھ  نہ لینا" جو   ہمارے اردو بلاگ پر موجود ہے

باقی مختصر یہ ہے کہ   اگر آزاد عدلیہ سے مراد کرپشن کی آزادی ہے اقرباء پروری کی آزادی  میرٹ کی دھجیاں اڑانے کی آزادی  تو آپ سب لوگ سخت  غلطی کررہے ہیں
کیا پاکستان کی عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب ہے بالکل بھی  نہیں
 این ٹی ایس ججز کو پروموشن  دینے والے بدعنوان عناصر پر مبنی صوبائی سیلیکشن بورڈ کو کسی صورت تسلیم  نہیں کیا جاسکتا 
چیف جسٹس  سندھ  ہایئکورٹ  صاحب گزارش ہے کہ تین دن کے اندر صوبائی سیلیکشن بورڈ کو توڑ کر   ان  لوگوں پر مشتمل  بورڈ  تشکیل  جائے جو  این  ٹی ایس  فیل ججز کو پروموشن  دے کر ملک کو سول وار اور خانہ  جنگی  کے راستے پر  لے  جانے کے جرم  میں  شریک  نہیں ہیں 
 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی  سیٹوں کی تعداد کا اعلان کرنے  کے بعد  این ٹی ایس کے  نئے شیڈول کا اعلان کیا جائے اور موجودہ  صوبائی سیلیکشن بورڈ کی جانب سے  تشکیل دیئے گئے شیڈول کو منسوخ کیا جائے
چیف جسٹس صاحب میں آپ  کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سندھ ہایئکورٹ آپ کی یا کسی کی بھی ذاتی جاگیر نہیں ہے   عدلیہ کو جو بجٹ دیا جاتا ہے وہ اس غریب ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس  عدالتی  نظام کو ایک آئین کی روشنی میں چلانے کے آپ بھی پابند ہیں  کسی قسم کی من مانی  کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی
چیف جسٹس پاکستان اور کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی بینچ نے  سندھ پولیس  کو پروموشن اور نئی تعیناتیوں کے حوالے جو گایئڈ لائن   دی تھی اور پاکستا ن بھر کے سرکاری اداروں  کو  نئی تعیناتیوں کیلئے  سارا  دن  جو نصیحتیں   آپ لوگ کرتے ہیں  اس پر سب سے پہلے آپ لوگ خود عمل کرنے کے پابند ہیں اس لیئے گزارش ہے کہ فوری ایکشن لیاجائے  
شکریہ
صفی الدین اعوان

No comments: