Powered By Blogger

Thursday 4 August 2016

پانچ روپے دیکر پھر چھین لوگے :::: تحریر صفی الدین اعوان


آج سے چند سال ہی پرانی بات ہے سٹی کورٹ میں ایک لڑکا آتا تھا اس کی آواز بہت ہی پیاری تھی وہ کراچی بار کی کینٹین میں وکلاء کے ساتھ آجاتا اور وہاں اس سے  وکلاء گانے سنتے تھے اور داد دیتے تھے  اس کے بدلے میں ایک کپ چائے اور کھانا کھلادیتے تھے   نوجوان وکلاء  کا ایک گروپ روزانہ وعدہ کرتا کہ پانچ روپے دیں گے لیکن گانا سننے کے بعد وہ اس سے پانچ روپے بھی واپس لے لیتے تھے  کیونکہ ان کا اپنا ہاتھ بھی تنگ تھا اس طریقے سے بھی اس کی اچھی خاصی آمدن ہوجاتی تھی  کیونکہ اور وکلاء بھی پیسے دیتے تھے
پھر ایک دن وہ لڑکا غائب ہوگیا وہ ایک نہایت ہی باصلاحیت لڑکا تھا اس کی آواز کا معیار انٹرنیشنل معیار کا تھا لوگوں نے قدر تو کی لیکن اپنی حیثیت کے مطابق کی
وہ اس گروپ کا بھی احسان مند تھا جو اس سے پانچ روپے دینے کا وعدہ کرتے تھے لیکن پورا نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے ہی اس کو اس کینٹین میں متعارف کروایا تھا
اس گروپ کا ایک ممبر میرا دوست ہے کل اس نے مجھے یہ سارے واقعات فلم کی طرح سنائے کیونکہ 1998 میں ہم بار کے ممبر نہیں تھے کہ وہ ایک لڑکا تھا بہت اچھا تھا ہمیں گانے سناتا تھا آواز بہت پیاری تھی ہرروز آتا تھا ہم صرف چائے پلاتے تھے اور میرا ایک ساتھی پانچ روپے کاوعدہ کرکے واپس لے لیتا تھا وہ بہت کہتا تھا یار ایسا نہ کرو
بعض اوقات ضرورت انسان کو کتنا مجبور کردیتی ہے اور بڑے بڑے باصلاحیت افراد کو کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ضرورت مند انسان جب انسان کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر انسان تو ظالم ہی ہے ناں 
میرے دوست نے کہا یار کل ایک عجیب معاملہ ہوا کلفٹن سے جارہا تھا کہ ایک نئے ماڈل کی کار میرے پیچھے لگ گئی بہت جان بچائی لیکن اس نے بالآخر مجھے ایک  جگہ گھیر ہی لیا اور میرے آگے کار کھڑی کردی میں اس صورتحال سے پریشان ہوہی رہا تھا کہ اس کار کی فرنٹ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ مجھے جانا پہچانا سا لگا تو اس نے کہا وکیل ساب پہچانا نہیں  میں نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اس کو پہچانا یہ تو وہی لڑکا تھا
اس نے کہا آپ کو میں نے بہت تلاش کیا آپ ملے ہی نہیں 

کیونکہ میرا دوست اسی دوران  1999 میں اعلٰی تعلیم کیلئے بیرون ملک چلا گیا تھا  اس نے کہا آج آپ کو سگنل پر پہچانا بہرحال مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے یہ تو میڈیا کے زریعے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک نامور گلوکار بن چکا ہے لیکن ملاقات پندرہ سال بعد ہورہی تھی لیکن آنکھوں پر پھر بھی یقین نہیں آرہا تھا   وہ مجھ سے مل کر بہت ہی خوش ہورہا تھا روڈ پر ایک مختصر سی ملاقات کرکے جانے لگا تو میں نے کہا کبھی آؤنا دوبارہ ہماری  بار میں اس نے ہنس کہ کہا کہ مجھے پتہ ہے تم لوگ مجھے پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے یہ کہہ کر وہ چلاگیا  
یااللہ کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے مجبور نہ کرنا  یہ انسان دنیا کا سب سے ظالم درندہ ہے
اس نوجوان کو آج پورا پاکستان رحیم شاہ کے نام سے جانتا ہے   میں یہ واقعہ شیئر نہ کرتا اگر رحیم شاہ نے خود شیئر نہ کیا ہوتا 

No comments: