Powered By Blogger

Wednesday 3 August 2016

ساب راستہ بدل کر نہ جائیں:: تحریر صفی الدین اعوان

ساب راستہ بدل کر نہ جائیں::  تحریر صفی الدین اعوان  
                                                                       
                                                                        2009 ٹنڈو محمد خان سندھ
وہ ایک روشن صبح تھی  حسب معمول عدالت سے   تھوڑے ہی فاصلے پر واقع اپنے گھر سے
ایک مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے  پیدل   چلتے ہوئے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے درخواست وصول نہیں کی اور سائل کو  قطعی  طور پر نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا دونوں میں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا ایس ایچ  او  کا  بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کیا افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں
ہمارے بہت سے ججز جو ہمارے دوست بھی ہیں عدلیہ کا اسی حد تک اجلا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں 
  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ ہو مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے اس لیئے پہلے ان کی اپنی بدلی کروائی گئی اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
یہ باتیں ہم سب کے سوچنے کی ہیں ہمارے ان دوستوں کی  جو کل تک ہمارے ساتھ ہی قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے نظام کو بدلنے کی بات کررہے تھے  دوستو ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ کیا وہ جذبہ آج بھی زندہ ہے  اسی جذبے کو انہی باتوں کو یاددلانے کی کوشش کرتے ہیں

 سندھ ہایئکورٹ کراچی 2011
جس جوڈیشل مجسٹریٹ نے تھانے پر چھاپہ مارا تھا اور افسران بالا کے زریعے افسران کو معطل کروایا تھا اور ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر داخل کروائی تھی وہ سندھ ہایئکورٹ  کراچی  میں   تاریخ  پر آیا ہوا تھا  کسی اہم کیس کی تاریخ تھی  
پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں ہی  مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر  تیزی  اور خاموشی  سے نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کی عدلیہ کے  صرف  ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم  پولیس  والے ہی ہیں  سب سے زیادہ  ہم برے ہیں
لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت  آپ کے ٹرانسفر  کے بعد ان  پولیس افسران  کو باعزت  بری نہ کرتی تو ہم اپنے افسران   کو  کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم  پولیس والے  ہی   بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس کسی کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا

جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس اس پولیس افسر کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا مکالمے کی صلاحیت سے محروم معاشرے سے تعلق رکھنے والا  ایک ایسا معاشرہ  جہاں مکالمے کو گالی سمجھا جاتا ہے اس  بے حس  معاشرے کا فرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورجوڈیشل مجسٹریٹ خاموشی سے  سرجھکائے اپنے گھر واپس روانہ ہوگیا

No comments: