Powered By Blogger

Tuesday 2 August 2016

وکالت کی معراج کیا ہے تحریر صفی الدین اعوان

ایک  قابل احترام جسٹس نے بتایا کہ  وکیل اپنی وکالت کی معراج پر کب پہنچتا ہے اس وقت جب وہ جرح کے فن پر مکمل عبور حاصل کرلیتا ہے
جرح ایک فن ہے ایک آرٹ ہے ایک سائنس ہے
فوجداری مقدمات میں جرح کیلئے ضابطہ فوجداری پر مکمل عبور ، پولیس ایکٹ پر عبور، قانون شہادت پر مکمل عبور اور جدید ترین نظائر یعنی   عدالتی فیصلوں کو گہرائی تک جاکر پڑھنا ضروری ہے  اور اسی طرح کی  ترتیب سول مقدمات کیلئے ہے   
اس کے علاوہ فن جرح پر لکھی گئی جدید و قدیم کتابوں کا  تفصیلی مطالعہ نہایت ضروری ہے
وہ لوگ جو انڈیا کی فلمیں دیکھ دیکھ کر عدالت میں کیس کے دوران  جرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں  یہ ایک خالص علم ہے
جب وکیل جرح کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو  اس کا ہر سوال  خاص مقصد کے تحت ہوتا ہے اور وہ اتنے اہم سوالات ہوتے ہیں کہ ہر سوال پر  جج اعتراض اٹھاتا ہے اور وکیل  اس اعتراض کا جواب قانون شہادت یا کسی کیس لاء کے ساتھ دیتا ہے  اور جب کسی پولیس افسر پر جرح کرتا ہے تو وہ اس قدر باریکی سے جرح کرتا ہے کہ  پولیس افسر کے پسینے بہہ رہے ہوتے ہیں  جو وکیل فن جرح پر عبور حاصل  کرلے   پولیس افسر اس کے سامنے  جرح  کیلئے کبھی نہیں آتا




قابل احترام جسٹس  نے بتایا کہ  جب وہ جونیئر تھے یعنی  تین سال کی پریکٹس تھی  تو ایک دن ایک سیشن جج نے عدالت میں ایک قتل کا  مفت کا مقدمہ دیا سیشن جج کا ذہنی موڈ تمام  ملزمان کو سزائے موت دینے کا تھا
جب میں نے ایک ہفتہ تیاری کرنے کے بعد  جرح کی تو پہلے ہی سوال پر سیشن جج کا چہرہ ہی سرخ ہوگیا اور کہا برخوردار آپ یہ سوال نہیں پوچھ سکتے میں  نے ایک کیس لاء کا حوالہ دیا  جس کے  بعد انہوں نے سوال پوچھنے کی اجازت دی دوسرے سوال پر  انہوں نے اعتراض کیا میں نے قانون شہادت کی روشنی میں جواب دیا اسی طرح سیشن جج نے ہر سوال  پر اعتراض کیا اور  کیونکہ میں تیاری کرکے آیا تھا تیاری سے مراد  مکمل تیاری اور ذہنی طور پر تمام اعتراضات کیلئے تیار اور ہر اعتراض کا جواب بھی تیار تھا
اس کے علاوہ  فن جرح پر تمام کتابوں کا مطالعہ بھی مکمل تھا اور ان میں سے ایک نایاب کتاب میں نے ایک سینئر کے آفس میں جاکر مطالعہ کیا تھا   حالانکہ میری زیادہ پریکٹس  سول سائڈ کی تھی اس کے باوجود جرح کے زریعے میں نے  حق اور باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی اور جب  تفتیشی افسر پر جرح کی تو اس کے پسینے پانی کی طرح بہہ رہے تھے اور وہ  بار بار پانی  طلب کررہا تھا اس کی وجہ  تفتیشی افسر کی جانب سے تفتیش میں  فاش غلطیاں   ضابطوں کی خلاف ورزیاں  تھیں  کیونکہ پولیس ایکٹ    مکمل پڑھا تھا اور میں جرح  ان ضابطوں کے مطابق کررہاتھا  جو عام  طور پر وکلاء اور ججز کی نظر سے نہیں گزرے ہوتے    اور بہت سے سولات ایسے تھے جو دوران مطالعہ  قانون کے شماروں میں مختلف فیصلہ جات کا حصہ تھے  اور میری نظر سے گزرے تھے اور مختلف کیس لاء میں یہ بات سامنے آئی تھی  کہ ضابطہ جات کی خلاف ورزیوں  کو کس طرح ریکارڈ پر لاکر ملزم کو فائدہ پہنچایا جائے
وکیل کبھی کسی  گناہگار کو سزا سے نہیں بچاتا  بلکہ جرح کے زریعے یہ واضح کرتا ہے کہ اصل حقیقت کیا تھی اور کس طرح کسی بھی کیس میں  بے گناہوں کو پھنسایا گیا ہے   اسی طرح جرح کے زریعے اصل ملزمان  بھی سامنے آتے ہیں 
اللہ کا شکر ہے کہ میری جرح کے زریعے تین میں سے دو بے گناہ افراد رہا ہوئے جن کو پولیس نے بے  گناہ کیس میں پھنسایا تھا
دیوانی مقدمات تو صورتحال مزید نازک ہوتی ہے کیونکہ وکیل کی غلطی کسی کو اس کی چھت سے محروم کردیتی 
ہے
بدقسمتی سے جب اپیل ہایئکورٹ آتی ہے تو کیسز کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ وکلاء کی 

غلطیاں  لوگوں کو ان کے حق سے محروم کردیتی ہیں 

اہم غلطی مطالعہ کا نہ ہونا اور قانونی شمارہ جات کا مطالعہ نہ کرنا  

وکلاء کو چاہیئے خصوصاً جونیئر وکلاء کو چاہیئے کہ   وہ  جرح کی تیاری   مطالعے کی روشنی میں کریں 

No comments: