اردو ڈرامہ
وارث کا یہ ڈائیلاگ مجھے اکثر یاد رہتا
ہے آج مجھے ایک اہم موقع پر یاد آیا
دلاور چوہدری
حشمت سے کہتا ہے کہ
چوہدری
حشمت بن کر سوچنے سے اس سوال کا جواب آپ
کو کبھی نہیں ملے گا –چوہدری صاحب-اس
کیلئے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ نیچے اتر کر انسانوں میں آنا ہوگا
چوہدری حشمت:
بھیڑ میں بندہ گواچ جاتا ہے دلاور (گم ہوجاتا ہے)
دلاور: یہیں تو
سارا سوچ کا پھیر ہے چوہدری صاحب آپ کے نزدیک بندہ بھیڑ میں گم ہوجاتا ہے اور
میرے خیال میں بندے کی پہچان بھیڑ میں آکر ہوتی ہے
ایک جج صاحب ہیں
صاحب علم ہیں اور علمی شخصیت ہیں ان کے
ساتھ میرا ذاتی تعلق نو
سال سے ہے اور یہ تعلق عدالتی اصلاحات
کے ہی حوالے سے تھا ایک لحاظ سے وہ میری آئیڈیل
شخصیت بھی ہیں کیونکہ
اتنے عرصے کے تعلق کے دوران میں نے ان کی زبان سے کبھی بھی کوئی
ہلکا کلمہ نہیں سنا یعنی ہلکی بات نہیں
سنی اور جب بھی بات کرتے ہیں تو عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ہی کرتے ہیں
اور دلائل کے ساتھ کرتے ہیں میرا ان کے ساتھ براہ راست تعلق پانچ سال رہا اس دوران میں ان کے آفس سے بھی منسلک رہا یعنی دوہزار سات سے لیکر دوہزار بارہ تک بعد ازاں وہ
جج بن گئے جس کے بعد میں نے خود ہی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے پاس جایا
کروں کیونکہ جج زیادہ سوشل نہیں ہوتے اور کسی جاننے والے جج سے کسی کیس کے حوالے
سے ملنا یا سفارش کیلئے کہنا میری طبیعت
کے خلاف ہے آج کل نہایت ہی اہم ترین پوسٹ پر ہیں کل چار سال بعد ایک ضروری کام
سے جانا ہوا تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ وہ بھیڑ میں گم نہیں ہوئے رش کے
باوجود نہ صرف مجھے پہچانا بلکہ گفتگو کا
سلسلہ وہیں سے ہی شروع کیا جہاں 2012
میں ٹوٹا تھا اور علمی لحاظ سے کافی اچھی
گفتگو رہی اور اس دوران وہ کسی سے بھی نہیں ملے
ویسے بھی کورٹ کا ٹائم ختم ہوچکا
تھا
میں نے جاتے وقت
یہ شکوہ ضرور کیا سر آپ کے جانے سے ہمارے ڈسٹرکٹ کورٹ ویران ویران سے ہوگئے ہیں ہمیں تو تلاش کرنے سے بھی صاحب علم نہیں ملتا
بات کریں تو کس سے کریں
واقعی کراچی کے
ڈسٹرکٹ کورٹس میں جہاں جہاں علمی اور ادبی
شخصیات کی مخصوص نشستیں ہوا کرتی تھیں وہ سب کی سب ویران ہوچکی
ہیں اور ان ویرانیوں کو دیکھ کر دل خون کے
آنسو روتا ہے
پاکستان میں آج
کل عجیب سا قحط پڑگیا ہے تلاش کرنے سے
ڈھونڈنے سے علمی شخصیت نہیں ملتی اہل علم
کو تلاش کرکے تھک جاتے ہیں بعض اوقات پورا مہینہ گزرجاتا ہے کوئی اہل علم نہیں
ملتا اس ملک میں عجیب قحط پڑگیا ہے
دلاور: یہیں تو
سارا سوچ کا پھیر ہے چوہدری صاحب آپ کے نزدیک بندہ بھیڑ میں گم ہوجاتا ہے اور
میرے خیال میں بندے کی پہچان بھیڑ میں آکر ہوتی ہے
واقعی انسان کی
پہچان بھیڑ میں ہی آکر ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment