Powered By Blogger

Sunday 3 July 2016

اپنی قبر خود کھودنے کا قانون ::::: تحریر صفی الدین اعوان

این ٹی ایس فیل ججز اسکینڈل
یہ دنیا  کی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا  اسکینڈل  ہے ۔ جس کے بعد سندھ  کی عدالت  "عالیہ  "سے منسلک عدالتوں میں پریکٹس کرنے والے ہر  باضمیر وکیل کا سر شرم سے جھک گیا ہے  وکیل یہ سوچ سوچ کر نفسیاتی ہورہے ہیں  کہ  این ٹی ایس   فیل  جج اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد کیا ان کا ضمیر گوارہ کرے گا کہ  ایک ایسے جج کے سامنے پیش ہوں جس کی پروموشن دھوکے ،فراڈ  اور اس  ملک کے آئین  سے سنگین غداری  کا نتیجہ ہو  ۔ اور کیا ایسے سفارشی اور نااہل کے سامنے پیش ہونا ایک وکیل کی توہین نہیں تو اور کیا ہے
سندھ  کی عدالت "عالیہ"  نے گزشتہ  چند سال کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحانات کیلئے کئی بار مقابلے کے امتحانات منعقد کیئے ہیں
ان امتحانات میں  وکلاء کے ساتھ ساتھ  سول  ججز  اور سینئر سول  ججز بھی شریک ہوئے ۔ سندھ ہایئکورٹ نے سخت  شفافیت کا ایک معیار مقرر کیا اور اس پر بار بار فخر کا اعلان بھی کیا کہ میرٹ پر کسی بھی قسم کا  کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا این ٹی ایس پاس کرنے کیلئے سو میں سے ساٹھ نمبر لینے ضروری تھے میرٹ میرٹ اور صرف میرٹ   یہ پورے  پاکستان میں سخت ترین معیار تھا اسی دوران سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس  سجاد علی شاہ صاحب ایک ایسے سخت گیر جسٹس کے طور پر سامنے آئے جو میرٹ پر کمپرومائز نہیں کرتے تھے   اور بلاشبہ محترم فیصل عرب اور قابل احترام سجاد علی شاہ کے ماضی  کے  انہی اصولوں کو ہم نے ہر جگہ خراج تحسین پیش کیا اور ان ہی اصولوں کی بنیاد پر اچھے وکلاء آج بھی سجاد علی شاہ صاحب کا نام عزت سے لیتے ہیں  اور جو لوگ سجاد علی شاہ صاحب کی مخالفت پر کمربستہ رہتے تھے ان لوگوں نے بھی وقت کے ساتھ اپنی رائے تبدیل کی اور ان کے  سخت  اصولوں  کی حمایت  کی   اسی دوران پورے سندھ کی عدلیہ کو کمپیوٹرائزڈ کرکے ملکی تاریخ کا ایک بے مثال کارنامہ سرانجام دیا گیا  جس کے بعد محترم سجاد علی شاہ قابل احترام فیصل عرب صاحب اور  قابل احترام مقبول باقر صاحب کے وقار میں مزید اضافہ ہوا
بار بار این ،ٹی ،ایس کے  انعقاد کے باوجود سندھ ہایئکورٹ کو ایسے  خوش  نصیب امیدوار نہیں ملے جن کو عدالتوں میں جج مقرر کیا جاتا بڑی  مشکل سے شاید ان خوش نصیب افراد کی تعداد  بیس سے بھی زیادہ نہیں ہوگی جن کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر کیا گیا  اور ان خوش نصیب افراد میں بھی وکلاء کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور ایک دو بڑے افسران کے بیٹے تھے   اس لیئے وکلاء کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ نالائق ہیں  کیونکہ نالائق وکلاء این ٹی ایس کا امتحان پاس ہی نہیں کرسکے تھے
سندھ ہایئکورٹ کے جسٹس صاحبان نے ہرجگہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ وکلاء  اس قابل ہی نہیں کہ ان کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن لگایا جاتا سندھ میں ایسے وکیل موجود ہی نہیں ہیں 
سندھ ہایئکورٹ کے ان اقدامات کو پوری دنیا نے سراہا  سندھ ہایئکورٹ کو مزید  عزت اس وقت ملی  جب سندھ ہایئکورٹ نے کرپشن میں مشغول  جج نما ڈاکوؤں کو عدلیہ سے نکال کر باہر پھینک دیا ان گندے انڈوں  میں وہ سب لوگ شامل تھے جن کو سندھ کے وکلاء سالہا سال سے کرپشن میں مشغول دیکھتے  تھے اور وہ واقعی نامی گرامی  ڈاکو تھے جن کو وقت نے جج سے ڈاکو بنا دیا تھا  اس طرح تیس کے قریب ڈاکو ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اس سے بڑا کریک ڈاؤن رشوت خور ججز کے خلاف آج تک  پورے پاکستان  میں نہیں ہوا  اور یہ کریک ڈاؤن آج بھی جاری ہے  دوسری طرف لاہور ہایئکورٹ کے قابل احترام چیف جسٹس نے  مرد آہن کی طرح  پنجاب  کی عدالتوں  میں موجود رشوت  خور جج  نما   ڈاکوؤں کی گردن کو دبوچ کر سندھ ہایئکورٹ کے نقش قدم پر چلنے ہی  کی کوشش کی ہے
پورے صوبہ سندھ میں  عدلیہ کے ان اقدامات کی  حمایت کی گئی۔ بدعنوان ججز کی تباہی پر کوئی بھی رونے والا نہ تھا
لیکن جو عدلیہ میرٹ کے معاملے میں اس قدر حساس تھی  اسی عدالت عالیہ کے چند بدعنوان افسران  نے اسی دوران خاموشی سے کرپشن بدعنوانی اور میرٹ کے معاملے میں ایک  یوٹرن لے لیا  اور دنیا کی عدالتی  تاریخ  کا اتنا بڑا  دھوکہ  اور فراڈ سامنے آیا  جس کی  مثال  پوری انسانی تاریخ  میں  نہیں  ملتی  این  ٹی  ایس  فیل  جج اسکینڈل  کے سامنے آتے ہی  پورے صوبہ  سندھ  کا عدالتی نظام  شاک کی کیفیت  میں چلاگیا جس کے بعد سابق چیف  جسٹس  مقبول  باقر صاحب ،صاحب محترم فیصل عرب صاحب  اور  موجودہ چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سجاد علی شاہ صاحب کی سخت  گیری ان کے سخت اصول اور ان کی نہایت ہی محنت سے بنائی گئی ساکھ   بھی ایک سوالیہ نشان بن گئ  ہے  ۔ کیونکہ اس اسکینڈل نے عدلیہ کو اس طرح سے تباہ اور برباد کیا ہے کہ بحالی اگلے دوسو سال تک ممکن نظر  نہیں آرہی
جو سول ججز اور سینئر سول ججز  این ٹی ایس کے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور  شرمناک  طریقے سے  تین تین باردس  پندرہ  یا بیس بیس نمبر لیکر فیل ہوگئے تھے اصولی طور پر تو ان کو اسی دوران عدلیہ کی نوکری  سے ہی فارغ کردینا چاہیئے تھا  کیونکہ این ٹی ایس  کے دوران ہی  ان کی نااہلی کھل کر سامنے آچکی تھی بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا لیکن  سندھ کے عوام کے ساتھ اور آئین پاکستان کے ساتھ غداری کرتے ہوئے  اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کے امن و امان کو تباہ کرنے کیلئے امن کو برباد کرنے کیلئے   سوچے سمجھے منصوبے  کے تحت  سندھ کی عدلیہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کردینے کیلئے  ایک نئی  سازش  اور چال  چلی گئی اور  صوبہ سندھ کی عدلیہ پر  رات کی تاریکی میں  چند بزدلوں  نے ایک ایسا شب خون مارا جس کے نتیجے میں  عدالتوں میں چپڑاسی اور کورٹ کلرک ٹائپ قسم کے لوگوں کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے پر فائز کرکے  سندھ کی عدالت  عالیہ کے  ساتھ  اس کے اپنے ہی محافظوں نے دن کے اجالے میں "عالیہ  بی بی " سمجھ کر  سرعام زنا کرکے اس کی عزت کو سرعام تار تار کردیا  اور  عدلیہ کی اس عصمت دری کے نتیجے میں  ایسا بحران جنم لینے والا ہے جو پورے پاکستان کے عدالتی نظام کی بنیادوں کو ہلا کررکھ دے گا اس لیئے  اب وقت آگیا کہ عدالت  عالیہ اور عدالت عظمٰی جیسے زنانہ نام تبدیل کرکے  مردانہ  اور مونچھوں کو تاؤ  دینے   والے نام  رکھے جائیں  کیونکہ ماضی میں مشرف  بھی  عدالت  کے زنانہ  ناموں  کی   وجہ سے غلط  فہمی  میں مبتلا ہوکر  عالیہ اور عظمٰی  کو کنواری  لڑکی  سمجھ کر عدلیہ کی عزت اور آبرو  لوٹنے کی بھرپور  کوشش کرچکا ہے جو کہ وکلاء  میڈیا اور سول سوسائٹی نے  بروقت  پہنچ  کر ناکام بنادی  تھی   لیکن جب گھر کے اندر ہی موجود  عزت کے رکھوالے ہی  عزت لوٹنے  اور تارتار کرنے پر تل جائیں تو کیا ہوگا  اس لیئے عالیہ اور  عظمٰی جیسے زنانہ  نام فوری تبدیل کیئے جائیں    
پورے صوبہ سندھ سے  ایسے  ایسے چپڑاسی اور کورٹ کلرک سطح کے  (سول  جج ) ڈھونڈ  ڈھونڈ  کر تلاش کیئے گئے جو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج کے این ٹی ایس کے امتحان میں فیل ہوگئے تھے اور بار بار فیل ہوئے اور شرمناک طریقے سے فیل ہوگئے تھے اوریہ   وہی لوگ تھے جن  کو فیل  کرنے کے  بعد   داد  اور تمغے بھی وصول کیئے  گئے کہ ہم نے میرٹ  پر سمجھوتہ نہ کیا ہے نہ کریں گے  انہی فیل  لوگوں کو  آئین پاکستان کے ساتھ غداری کرکے   خفیہ  طور پر ان   گھٹیا  قسم کے لوگوں  کو سفارش  کی بنیاد  پر اس سیٹ پر بٹھا دیا گیا  یہ بھی ممکن ہے کہ رشوت  بھی لی گئی ہو ایسے ایسے جاہل پروموٹ کردیئے گئے  جنہیں پورے پاکستان میں میرٹ پر  چپڑاسی یا پٹے والے کی  نوکری  ڈھونڈنے سے نہ ملے  سوال یہ ہے کہ ان  چپراسیوں اور پٹے والوں کو  سول جج سے پروموشن دیکر سینئر سول جج اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج کی  حسا س سیٹ پر بٹھانے کا ذمہ دار کون ہے؟ سوال یہ  بھی ہے کہ میرٹ کہاں  مرگیا کیوں مر گیا اس میرٹ نے بے شرمی سے  خود ہی خودکشی  تو نہیں کرلی  یا اس کو  بے رحمی  سے چھری مار مار کر قتل کیا گیا ہے  اس بے چارے میرٹ کا جنازہ بھی ہوا تھا یا نہیں  میرٹ کو غسل کے بعد کفن بھی دیا گیا تھا یا نہیں یا اس کو  عدالت عالیہ کے احاطے میں ہی کہیں   بغیر پوسٹ  مارٹم کے بے گوروکفن  دفنا تو نہیں دیا  گیا  مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرٹ کی لاش ایدھی کے  قبرستان میں لاوارث  بے گوروکفن  پھینک دی گئی ہے
میں  جناب  قابل احترام  جسٹس  اور سابق  چیف  جسٹس  سندھ  ہایئکورٹ    مقبول  باقر صاحب ،فیصل  عرب  صاحب  اور سجاد علی شاہ صاحب چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں کہ  کیا یہ سب باتیں   اور صوبہ سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا  فراڈ آپ کے علم میں نہیں تھا؟ اور صوبہ سندھ کی  عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ جو سامنے آرہا ہے اس کے بعد  موجودہ  اور سابق چیف جسٹس  صاحبان  کی عزت اور احترام بھی سوالیہ نشان  بن رہی ہے

 اس سے پہلے کہ ہم  سندھ  ہایئکورٹ کی حدود میں  آئین پاکستان کی عصمت دری  کے خلاف  ایک آئینی پٹیشن عدالت میں داخل کریں  چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کو خوشامدیوں کے حصار کو توڑ کر  باہر نکلیں  اور اس معاملے کا ازخود  نوٹس لیکر ذمہ داران کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنا چاہیئے  چپڑاسی  اور پٹے والوں کی سطح کے لوگوں کے پروموشن منسوخ کرکے ان کو  عدلیہ سے ہی نکال باہر کرنا چاہیئے ۔
سجاد علی شاہ صاحب قابل احترام چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ  میں نے رجسٹرار سندھ ہایئکورٹ سے مندرجہ ذیل معلومات آئین پاکستان کے تحت  معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت  طلب کی ہیں
نمبر1 مجھے ان ایک سو سے زائد سفارشی   سول ججز  اور سینئر  سول  ججز کی لسٹ دی جائے جو  گزشتہ چھ سال کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحانات میں شریک ہوئے تھے اور ان کے حاصل کردہ نمبر
نمبر 2۔ مجھے ان  سفارشی  سول ججز اور سینئر سول ججز کی لسٹ دی جائے جو این ٹی ایس میں شریک ہوئے اور فیل ہوئے  بعد ازاں  ان ججز کو غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور آئین پاکستان سے سنگین غداری کے بعد    کراچی کے حالات تباہ کرنے کیلئے  ان ججز کو پروموشن دے دی گئی؟
نمبر 3 ۔  یہ پروموشن کس نے دی ہیں ان پروموشن کا ذمہ دار کون ہے ۔ ان تمام  بدعنوان  افراد کی لسٹ مجھے فراہم کی جائے
نمبر4۔ مجھے معلومات تک  رسائی کے قانون کے تحت یہ معلومات فراہم کی جائیں کہ  جو لوگ ان غیرقانونی غیر اخلاقی پروموشنز جن کے تحت چپڑاسی سطح کے  فیل لوگوں  کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سیٹ پر بٹھا کر عدلیہ کی توہین کی گئی ہے کیا ان میں سے کوئی فرد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیلیکشن کمیٹی  میں کسی کو شامل کیا گیا ہے اور اگر کیا گیا ہے تو ان کے نام  بتائے جائیں

نمبر 5 ہمیں  معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ بھی معلومات فراہم کی جائیں کہ   ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی کتنی  نشستوں کیلئے  اشتہار دیا ہے ان  نشستوں کی تعداد کا اعلان کیا جائے
نمبر 6 ہمیں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ بھی بتایا جائے کہ ایک طرف تو پانچ اور دس نمبر لیکر شرمناک طریقے سے فیل ہونے والے بے شرموں کو  بے شرمی اور بے غیرتی  کے سارے ریکارڈ  توڑ کر پروموشن دے دی گئی تو دوسری طرف وکلاء کیلئے میرٹ کا معیار ساٹھ فیصد  مقرر کیا گیا ہے جناب والا  کیا یہ عمل وکلاء کے ساتھ کھلم کھلا غنڈہ گردی اور بدمعاشی  نہیں تو اور کیا ہے ۔اور بدمعاشی تو کسی بدمعاش کو ہی زیب دیتی ہے
ان تمام حقائق کے باوجود میں حسن ظن سے کام لے رہا ہوں میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ سجاد علی شاہ صاحب  اس معاملے میں براہ راست ملوث نہیں ہیں   لیکن ان کو انتہائی سخت ترین نوٹس لیکر ان  چپڑاسیوں اور کورٹ کلرکوں کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی جن کو عدلیہ کی عصمت دری کے  بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا کر روزانہ  عدلیہ کی  سرعام عصمت دری کی  اجازت دے دی گئی ہے  اور یہ  نااہل  ہرروز عدلیہ کی عزت کو لوٹ رہے ہیں  چیف صاحب عدلیہ برباد ہوچکی  عدلیہ   کی  شان اور  عزت  ان پٹے والوں کے ہاتھوں  مکمل طور پر لٹ پٹ  چکی ہے ہے  یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی مکمل بربادی کے بعد عدلیہ اس قابل ہی نہیں رہی کہ  کسی ملزم کو سزا دے سکے ملزمان کو سزا دینے کی اہلیت عدلیہ ہمیشہ کیلئے کھوچکی ہے   جس عدلیہ کی عزت  بار بار فیل ہوجانے والے  اور صرف اور صرف سفارش کی بنیاد پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور سینئر سول جج منتخب ہونے والے  چپڑاسی   اور پٹے والوں  کی سطح کے لوگ لائن لگا کر  ہرروز عزت  لوٹتے ہوں وہ عدلیہ اس طرح  بار بار عصمت دری کے بعد خود انصاف کی طلبگار بن گئی ہے  موجودہ عدلیہ  (عالیہ )عزت لٹ جانے کے بعد انصاف دینے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھی ہے جس  بیچاری  کی اپنی عزت لٹ جائے   وہ  بے چاری مظلوم  عالیہ  بی بی کسی کو کیا انصاف دے گی یہ منہ اور مسور کی دال

  جس کے بعد کراچی بدامنی کیس ہمارے عدالتی نظام پر پوری طرح لاگو ہوجاتا ہے ۔ ہرروز جان کی قربانی دینے والی پولیس کراچی بدامنی کی ذمہ دار ہوسکتی ہے   کل  سپریم کورٹ  کے ہی ایک جسٹس  نے کہا تھا کہ   سندھ پولیس میں  ناجائز پروموشن   کی وجہ سے کراچی کے حالات خراب ہوئے سندھ پولیس کے شولڈر پروموشن کل ہماری عدلیہ  کے ایک  اشارے پر    نوچ نوچ کر اتاردیئے  گئے تھے کل عدلیہ نے ہی کہا تھا کہ یہ سب پروموشن غلط ہوئے ہیں ان کو منسوخ کیا جائے جس کے بعد کل پولیس نے  عدلیہ کی بات مان کر تمام افسران کے شولڈر پروموشن منسوخ کردیئے تھے ۔ کراچی  میں بدامنی کا اصل ذمہ دار کون ہے
سب جانتے ہیں کہ  نااہل عدلیہ ہمیشہ سے ہی ذمہ دار ہے  اور صرف  احترام کی وجہ سے عدلیہ کا  نام کوئی نہیں لیتا  لیکن انسداد  دہشتگردی کی عدالت بنا کر نااہلی  کو تسلیم ضرور کیا جاتا ہے   اور کبھی   اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں ہوتی کہ ایک مکمل عدالتی نظام کی موجودگی  میں فوجی عدالت کے خلاف فیصلہ دے سکیں  اور ایک باقاعدہ عدالتی نظام کی موجودگی میں فوجی عدالت کا کڑوا گھونٹ ہنس کر پی لیا جاتا ہے  اور آخر میں مسکرا کر  یہ بھی کہتے ہیں کہ شربت مزے  والا تھا
  اس شہر میں اگر حالات اسقدر خراب ہوجائیں کہ حالات کی آگ چیف جسٹس سندھ  کے اپنے گھر تک پہنچ جائے  اور ان کے اپنے بیٹے کو دن دیہاڑے اغواء  کرلیا جائے تو کسی کو بھی حیرت  نہیں ہونا چاہیئے  ذمہ دار وہ عدلیہ بھی ہے جو  فیل فیل فیل اور صرف  فیل لوگوں  پر مشتمل ہے  آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا آپ کی عدلیہ کسی قتل کے ملزم کو تو دور کی بات کسی جیب کترے کو بھی سزا دینے کی اہلیت رکھتی ہے؟؟  اگر اہلیت نہیں رکھتی تو اغواء کاروں کا  تو یہ حق بنتا ہے کہ وہ چیف جسٹس سمیت کسی  بھی شریف شہری کے بیٹے کو اغوا کرکے لے جائیں 

اگر چیف صاحب کے بیٹے کے اغوا کار گرفتار ہوجاتے ہیں تو کیا چیف صاحب خود پسند کریں گے کہ ان کے بیٹے کے اغواء کا مقدمہ مقبول میمن  معین بانو سوڈھر  ،ذبیحہ خٹک  ،مسز فتح مبین نظام،  زاہدہ سکندر  ،محمد علی خمیسانی  جیسے کسی جج کے سامنے چلایا جائے؟  لیکن اس وقت پورا کراچی اس  قسم  کے سفارشی  لوگوں کے رحم 
وکرم پر ہے  
چیف جسٹس صاحب  کل سندھ پولیس نے سینکڑوں کی تعداد میں  پروموشن  عدالت  عظمٰی  کے ایک اشارے  پر منسوخ کیئے ہیں آپ کو بھی کرنے ہونگے اور ان  چپڑاسیوں اور ان پٹے والوں  کو  نکال  باہر کرنا  ہوگا  ورنہ جو آئین پاکستان  پولیس والے کیلئے ہے وہی آئین پاکستان  ہمارے اور آپ کیلئے بھی ہے  اور کراچی کے حالات خراب سے خراب تر کرنے کی اصل ذمہ دار کراچی  میں موجود نااہل عدلیہ ہے  ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ادارہ ہی غیر فعال ہوچکا ہے    ہم کراچی بدامنی کیس میں فریق بن کر  یہ بات اسلام آباد سے آنے والے سپریم کورٹ کے قابل احترام  بینچ کو بھی بتائیں گے کہ  سندھ میں  عدلیہ کے ساتھ کیا ظلم اور زیادتی ہوئی ہے 
دوسری طرف لاہور ہایئکورٹ کے قابل احترام چیف جسٹس سے  بھی التجا ہے کہ  بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے سندھ ہایئکورٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے  تیس  بدعنوان ججز  کو  عدلیہ سے نکال باہر کیا ہے لیکن اگر ان تیس لوگوں کو نکال کر داد سمیٹ کر تمغے وصول کرنے کے بعد رات کی تاریکی  میں    میرٹ  کو قتل کرکے آپ بھی  سندھ   کی عدالت  عالیہ کے نقش قدم پر  چلتے  ہوئے  میرٹ  میرٹ اور صرف میرٹ  کے کھوکھلے نعرے لگا کر عدالتوں میں   جج  کی سیٹ  پر  سندھ  کی طرح ایک سوسے زیادہ این ٹی ایس  میں فیل ہونے والے   چپراسی اور پٹے والوں  کی سطح کے نااہل  لوگوں کو جج لگاکر اگر آپ بھی  پنجاب کی عدلیہ کی  اجتماعی عصمت دری کا ارادہ رکھتے ہیں  تو جناب آپ کو خدا کا واسطہ ایسی نیکی   کی پنجاب کے عوام کو کوئی ضرورت نہیں   جس طرح صوبہ سندھ کا عدالتی نظام تباہ  و برباد کرکے امن وامان کا مسئلہ اس حد تک خراب کردیا گیا کہ چیف صاحب کے بیٹے کو سرعام  اغوا کرلیا جاتا ہے اور عدلیہ میں لگی  ہوئی آگ  کے بے رحم شعلے ان کے اپنے گھر ہی کو جلادیتے ہیں    چیف جسٹس  لاہور ہایئکورٹ صاحب کہیں آپ بھی یہی  ظلم پنجاب  کی عدلیہ  کے ساتھ   توڑنے  تو نہیں جارہے  اگر ایسا ہوا تو یاد رکھئے گا کہ آپ وہ آگ لگانے جارہے ہیں جس کے شعلوں کی حرارت اور چنگاریوں سے آپ کا گھر اور  آپ  کے اہل خانہ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے  لیکن نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ  آپ ایسی گندی  گھٹیا اور نیچ حرکت  ہر گز نہیں کریں گے
جان بچانا بھی بھادری ہے  
 لیکن  زمانہ قدیم کے منگولوں کا ایک عجیب قانون تھا  جس کو قبر  میں دفن کرنے کا ارادہ کرلیتے تھے وہ  بدنصیب اپنی قبر بھی خود کھودنے کا پابند ہوتا تھا



No comments: