Powered By Blogger

Sunday 23 March 2014

جعلی وکلاء کے بعد اب جعلی ججز ۔۔۔ٹاؤٹ ازم کی بدترین مثال


ہماری ڈسٹرکٹ کورٹس میں بے شمار مافیاز سرگرم عمل ہیں ۔اور یہ  مافیاز ہمیشہ سے ہی سرگرم  رہے ہیں۔چند ماہ قبل مجھ سے ایک پرانے "کلائینٹ " نے رابطہ کیا ان کی کمپنی کے فوجداری مقدمات کی پیروی میں کرتا ہوں کلایئنٹ نے کہا کہ وہ اپنی ایک قریبی عزیزہ کا خلع کا کیس داخل کرنا چاہتے ہیں کتنا عرصہ لگ جائے گا اور لڑکا  جس سے خلع لینی  ہے  پنجاب میں رہتا ہے میں نے کہا کہ اگر مخالف پارٹی دوسرے صوبے یا شہر میں رہایئش پزیر ہوتو قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے کم ازکم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے
کلائینٹ نے کہا کہ ہمیں تو فوری طور پر ڈگری درکار ہے ۔ایک وکیل ہمیں ایک ہفتے میں ڈگری جاری کروا کر دے رہا ہے میں نے کہا کہ اگر فریق مخالف پہلی تاریخ پر حاضر ہوجائے تو بھی کم ازکم ایک ماہ درکار ہے   آخر کار میں نے  زچ ہو کر کہا  بھائی جو ایک ہفتے میں یہ کام کروارہا ہے اسی سے کروالو۔ بقول اس کے اس کاکام ہوگیا تھا لیکن میں نے یہی سمجھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے
اس قسم کی رپورٹنگ عرصہ دراز سے ہورہی تھی کہ جو کا م قانونی طور پر ایک سال یا چھ ماہ سے قبل ہوناناممکن ہے وہی کام ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک دن ایک ہفتے یا چند دن میں ہوجاتا ہے۔ لیکن میں اس کو مذاق ہی سمجھتا تھا۔کیونکہ بہت سے سائل یا کلایئنٹ جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کے جھوٹ بول کر "جوش" دلانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ڈسٹرکٹ کورٹس میں  
ایک سے ایک  فن کار گھومتا ہے مختصر یہ کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے تاریخ میں پہلی بار اس "بلی " کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی کوشش کی ہے جو کہ بلی نہیں بلا ثابت ہوا اور بھی  دھاری دارباگڑ بلا

لیکن بہت سے کام بالا ہی بالا ہورہے ہوتے ہیں
ایک سب سے خطرنا ک مافیا وہ ہے جس کی جڑ عدالت کے اندر موجود ہوتی ہے اور وہ جعل سازی کیلئے عدالت کا کمرہ استعمال کرتے ہیں اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ شام کو جب جج اپنے گھر روانہ ہوجاتے ہیں تو جعل ساز مافیا بعض اوقات ایک جعلی جج کو اصلی چیمبر میں بٹھا دیتے ہیں ۔جہاں پر اصلی سائل پیش ہوتا ہے اور اس سے منہ مانگی رقم وصول کرکے اس کو احکامات جاری کردیئے جاتے ہیں یہ احکامات جعلی ہوتے ہیں اس میں کورٹ کا عملہ تو ملوث ہوتا ہے لیکن جب ڈرامہ اسٹیج کیا جاتا ہے تو   متعلقہ کورٹ کا عملہ موجود نہیں ہوتا بلکہ "گاما"  اور اس کے گروپ کے لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن ایسا بہت کم اور اس وقت ہوتا ہے جب بڑی رقم کا آسرا ہو
اسی طرح بعض اوقات اس سے بھی بڑی نوعیت کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں
سائل یہی سمجھتا ہے کہ کورٹ کا کمرہ تھا جج بھی اصلی  تھا تو میرا کام ٹھیک ہی ہوا ہوگا۔لیکن درحقیقت اس کو بے وقوف بنایا گیا ہوتا ہے
جعل سازی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلع کی ڈگری چایئے۔یا گارجین وارڈ کا سرٹیفیکیٹ تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک کورٹ کی ڈگری بنا کر دے دویا فلاں سرٹیفیکیٹ بنا دیں جس کیلئے کورٹ میں مقدمہ داخل کرنا لازمی ہوتا ہے لیکن یہ اہم اور حساس  نوعیت کی   جعلی قانونی  دستاویزات بھی چند ہزار روپے میں مل جاتی ہیں  کیونکہ کورٹ میں سرکاری ڈاک کی آمدورفت کا  ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اس لیئے  تصدیق کا کیا سوال اور اگر مشکوک معاملہ موصول ہوجائے تو کورٹ جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کرتی
چند سال قبل یہ معاملہ سامنے آیا تھا کہ پاکستان سے بہت بڑی تعداد میں  یتیم بچے  اور کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ  بچے جن کے والدین اس دنیا میں نہیں تھے سر پرستی کے قانونی سرٹیفیکیٹ کے زریعے بیرون ملک میں موجود مذہبی اداروں کو بیچ دیئے جاتے تھے۔ اس انکشاف کے بعد اگرچہ اب کورٹ اس قسم کے سرٹیفیکیٹس احتیاط سے جاری کرتی ہیں لیکن  کیا اس قسم کے سرٹیفیکیٹس جب پاسپورٹ آفس میں جمع کروائے جاتے ہیں تو وہ ان کی تصدیق کرواتی ہے؟ ۔۔۔نہیں تو اس کا کیا مطلب ہوا
جعل ساز مافیا  اس قسم کے سرٹفیکیٹس بھی چند روپوں کے عوض  جاری کردیتا ہے جس سے اس معاملے کے حساس پہلوؤں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کورٹ سے جاری شدہ اہم نوعیت کے وہ سرٹیفکیٹ جو نادرا میں شناختی کارڈ یا فارم "اے" کیلئے جمع ہوتے ہیں وہ کورٹس سے آج کل کم ہی جاری ہوتے ہیں بلکہ جعل ساز گروپ خود ہی جاری کردیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ نادرا ان دستاویزات کو درست مانتی ہے جب کہ عام عوام کو کیا پتہ کہ ان کو کس طرح لوٹ لیا گیا ہے۔جعلی طلاق نامہ بنانا تو آج کل چٹکی کاکام ہے کراچی بار کوشش کرے کہ نادار ا کا نیا کمپیوٹرائزڈ نظام لایا جارہا ہے تو  کمپیوٹرائزڈ طلاق نامہ  بھی اس میں شامل کرلے کیونکہ یہ بھی کورٹ کی حدود میں ہونے والی اہم ترین جعل سازیوں میں سے ایک ہے کیونکہ پرانی تاریخ میں بنائے گئے طلاق نامہ کے زریعے کسی بھی عورت کو اس کے شوہر کی جائیداد سے محروم کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیئے صرف اور صرف شناختی کارڈ کی ایک کاپی کی ضرورت ہے
موجودہ صورتحال میں آن لائن عدلیہ تو وقت کی ضرورت بن گئی ہے جب پورے سندھ کے وکلاء کا ڈیٹا آن لائن کرکے کسی بھی وکیل کی تصدیق سندھ بارکونسل کی ویب سائٹ سے کی جاسکتی ہے
آن لائن عدلیہ کے زریعے  یہ  بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی عدالتی ڈگری کی آن لائن تصدیق ممکن ہے کہ وہ خودساختہ ہے یا کورٹ کی جانب سے جاری کردہ یا اس نمبر کا کوئی کیس کورٹ میں داخل بھی ہوا ہے یا نہیں
مختصر یہ کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے ہمت دکھائی ہے لیکن وہ اب بھی صرف   دس فیصد کرپشن بے نقاب کرپائے ہیں کیونکہ   کرپشن کے اس سمندر سے کرپشن کو بے نقاب کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے
یہ مافیا طاقتور بھی ہے اور بااثر بھی ہے اب دیکھنا ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن اس معاملے کو کہاں تک لیکر جاسکتی ہے  

2 comments:

خاور کھوکھر said...

معاشرے کے جن ناسوروں کی نشاندہی اپ کر رہے ہین
یہ ایک بہت کی احسن کام ہے

افتخار اجمل بھوپال said...

محترم ۔ کس کس محکمہ کی بات کریں ؟ ہر محکمہ میں ناسور پل چکے ہیں ۔ نادرا کی سُنیئے ۔ جب پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور صوبہ خیبر پختونخوا میں مولویوں کی حکومت تھی ۔ اُس حکومت نے 35 ہزار سے زائد ژناختی کارڈ نادرا کو واپس بھیج دیئے تھے کیونکہ وہ جن کے نام جاری ہوئے تھے وہ پاکستانی نہیں تھے یا تھے ہی نہیں
آپ نے کمپوٹرائزیشن کی بات کی ہے ۔ اس سے بہت بہتری آ سکتی ہے لیکن کوئی ایسا کرے تو سہی ۔ گو کمپیوٹر میں ہیرا پھیری کرنے والے بھی پیدا ہو جائیں گے لیکن یہ کام کافی مشکل ہو گا ۔ میں نے نو دس سال قبل راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار کو پیشکش کی تھی کہ مفت پروگرام بنا کے انسٹال کر دیتا ہوں تاکہ کوئی مدعی یا مدعا علیہ عدالت میں یہ نہ کہے کہ وکیل صاحب ہائی کورٹ گئے ہیں یا دوسری عدالت میں مصروف ہیں ۔ جو وکیل صاحبان شور کر رہے تھے خاموش بیٹھ گئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے