دوسری شادی کا قانون اصولی طور پر غلط ہے ۔لیکن اس بے اصول
معاشرے میں اس قانون کو
اصولی طور پر
بدلنے کی ضرورت ہے۔سنا ہے کہ اس زمانے میں ایک طاقتور برسراقتدار کے بہنوئی نے
دوسری شادی کی تھی تو صاحب اقتدار نے فیملی قوانین میں یہ شق بھی شامل کردی کہ
دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت لینا
ضروری ہے لیکن تلاش کے باوجود مجھے اس کا تاریخی حوالہ نہیں ملا
لیکن اتنا ضرور پتہ چلا کہ
1961 کے فیملی قوانین کی اصل خالق بیگم
زاہدہ چوہدری خلیق الزمان
تھیں۔نواب صاحب لکھنو کہ نواب تھے اور ان کے شوق بھی نوابوں والے تھے۔لیکن یہ علم
نہیں ہوسکا کہ جب نواب صاحب نے خود دوسری شادی کی تھی تو پہلی سے اجازت لی یا نہیں
اس زمانے میں ایک واقعہ مشہور ہوا جس کا میں تذکرہ کردوں کہ
نواب صاحب کی اپنی ایک بھانجی تھیں جن کا نام معینہ خاتون تھا اور ان کے شوہر کا
نام خواجہ جمال الرحمٰن تھا ۔جمال صاحب
لکھنو سے ایم اے پاس تھے اور کے پی ٹی میں ملازمت کے علاوہ اسٹوڈنٹس کو مفت
انگلش کی ٹیوشن پڑھانا ان کا مشغلہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے علاقے میں بھی
ہردلعزیز تھے۔میاں بیوی میں بھی بھرپور اتفاق تھا کہ ایک مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا وہ
مسئلہ یہ تھا کہ جمال صاحب کے ہاں کافی
عرصہ اولاد نہیں ہوئی اور وہ یونین کونسل
میں چلے گئے کہ کیوں کہ ان کی اولاد نہیں ہورہی اور وہ یعنی (جمال صاحب ) اپنےماں باپ کے بھی اکلوتے
ہیں اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کا
نام آگے نہیں بڑھ پائے گااس لیئے ان کو دوسری شادی کی اجازت دی جائے ۔دوسری طرف
معینہ خاتون صاحبہ تھیں کہ مان کے ہی نہیں دے رہی تھیں اور کیونکہ اس زمانے میں
چوہدری صاحب کا خاندان اقتدار میں تھا تو یونین کونسل کی ہمدردی بھی نواب صاحب کے
ساتھ تھی مختصر یہ کہ خواجہ جمال الرحمٰن صاحب کو دوسری شادی کی اجازت نہ ملی
مجبور اور زچ ہوکر انہوں نے پہلی بیوی سے
علیحدگی اختیار کی دوسری شادی کی جس سے ان کے تین بچے ہوئے اور پھر وہ امریکہ ہجرت
کرگئے مختصر یہ کہ یہ بہت سادہ سا معاملہ ہے
تیکنکی لحاط سے یہ سیکشن ہی غلط ہے
اصل مسئلہ دوسری شادی کا ہے ہی نہیں پہلی بیوی کے ساتھ عدل اور کفالت کا ہے ایک
شخص جو پہلی بیوی کے حقوق نہیں پورے کرپارہا وہ کیوں دوسری شادی کرے گا
اصل مسئلہ یہ ہے کہ
اسلامی نظریاتی کونسل میں جو مستانے بیٹھے ہیں ان کو پنجابی زبان کا ایک
مشہور محاورہ نہیں پتا جو کہ اکثر گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے
" پھل موسم دا گل ویلے دی" دہشت گردی کا شکار ملک
جہاں ملاں بچوں کو خود کش دھماکے کرکے جنت کا سستا نسخہ دے رہے ہیں اس وقت ملاں کی
جانب سے دوسری شادی کا مسئلہ اٹھانا کسی غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ ہی لگتا ہے بہتر
یہ تھا کہ وہ خودکش دھماکوں کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈال لیتا لیکن شیروانی صاحب
کیونکہ اس ادارے سے مفت کی تنخواہ وصول رہے تھے اور وفاقی وزیر کی مراعات انجوائے
کررہے تھے اس لیئے شاید انہوں نے اپنی تنخواہ کو حلا ل کیا
جو بات کی گئی ہے وہ ٹھیک ہونے کے باوجود موقع کے لحاظ سےٹھیک نہیں یہ تو ویسے بھی وہ گم
گشتہ قانون تھا جس پر پہلے بھی عمل کہاں ہورہا تھا صرف ایک تلوار ہی تو تھی وہ بھی کند اور فرضی اسلامی نظریاتی
کونسل بیوی اور بچوں کے حقوق پر کام کرے
کہ اسلام نے جو حقوق ایک بیوی اور اس کے بچے کو دیئے ہیں وہ اگر پورے نہ
کیئے جائیں تو شوہر کو کیا سزا دی جائے
ملاں کو چاہیئے تھا کہ وہ یہ ترمیم لیکر آتا کہ دوسری شادی
کیلئے شوہر کو حکومت سے اجازت لینی چاہیئے کہ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں اور
پہلی بیوی کے حقوق پورے کروں گا اور اگر ایسا نہ کرپایا تو حکومت اس کو جیل میں
ڈال دے گی
شوہر کو اپنی بیوی اور بچوں کے حقوق ہر صورت پورے کرنے چاہیئں اس میں کوئی
دوسری تاویل نہیں ہے اور دنیا بھر کی
عدالتیں چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ
کوئی بھی باپ اپنے بچوں کے حقوق پورے نہ کرے اسلامی نظریاتی کونسل اس حوالے سے
فیملی قوانین پر کام کرے اور شوہر کو پابند کرے کہ وہ ہرصورت میں بچوں اور بیوی کے حقوق پورے کرے گا ورنہ جیل چلو۔۔۔۔یا اس کے اثاثے فروخت کرکے
خرچہ پورا کیا جائے گا۔
ملاں یہ انسانی حقوق کی بات نہیں ہے اسلامی قوانین ہیں جو
غیروں نے اپنائے ہیں اور اب ہم اپنی ہی تعلیمات کو غیروں کی تعلیمات سمجھ کر
اپنانے سے ہچکچاتے ہیں
وفاقی وزیر کے برابر مراعات کی حامل نام نہاد اسلامی
نظریاتی کونسل میں اور موجودہ فیملی
قوانین میں موجود دوسری شادی والی سیکشن میں زرا
بھی فرق نہیں
" دونوں کی کوئی حیثیت نہیں
No comments:
Post a Comment