Powered By Blogger

Wednesday 5 March 2014

جواں موت کس کس کو تڑپا گئی..............تحریر طیبہ ضیاء


اسلام آباد میں دہشت گردی کے شرمناک واقعہ پر بھی ہم لواحقین سے یہی کہیں گے کہ ’’صبر کرو…‘‘! اسلام آباد میں ایک اور المناک واقعہ پیش آیا ایف 8 کچہری پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا اور شدید فائرنگ بھی ہوئی‘ اس کے نتیجے میں ایک جج سمیت گیارہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس حملے کا نشانہ بننے والوں میں ایک نوجوان وکیل خاتون فضہ ملک بھی شامل تھی۔ فضہ ملک اسی سال برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان واپس پہنچی تھی اور ملک و قوم کی خدمت کے عزم کے تحت پریکٹس کا آغاز کئے اسے ابھی دو روز گزرے تھے کہ قوم کی اس قابل فخر بیٹی کو شہید کر دیا گیا۔ فضہ کی ماں کو روتے ہوئے دیکھ کر دنیا کی ہر ماں کا کلیجہ پھٹ گیا۔ جوان اولاد کی ناگہانی موت بذات خود ایک ناقابل برداشت سانحہ ہے جبکہ باصلاحیت اولاد کی جدائی کا صدمہ مزید تکلیف دہ ہے۔ فضہ اور مومنہ جیسی باصلاحیت یوتھ کا اس دنیا سے چلے جانا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ فضہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھی۔ والدین کی اکلوتی بیٹی اور دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ فضہ اپنی کار خود ڈرائیو کرکے کچہری گئی۔ سیاہ کوٹ پہن کر جاب پر گئی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی مگر اس کے خواب کی تعبیر کو ابھی دو روز گزرے تھے کہ اس کا سیاہ کوٹ سفید کفن میں بدل گیا۔ انگریزی اخبار کی معروف کالم نگار انجم نیاز نے جب فضہ ملک کی شہادت کی خبر سنی تو ہم سے کہا کہ فضہ اور مومنہ کی کہانی میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ فضہ کی موت نے زخم ہرے کر دیئے ہیں۔ فضہ ملک کی طرح مومنہ چیمہ بھی ہماری اکلوتی بیٹی اور دو بھایئوں کی اکلوتی بہن تھی۔ وہ بھی پچیس سال کی تھی۔ وہ بھی قانون کی ڈگری کے لئے امریکہ کی بہترین یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔ مومنہ بھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔ امریکہ کی جیلوں میں قید مسلمان قیدیوں کو رہائی دلانے کا عزم رکھتی تھی۔ مومنہ کو نیویارک کی عدالت میں فیڈرل جج کے ساتھ انٹرن شپ کرتے ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ کار حادثہ میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ مومنہ بھی اپنی گاڑی خود چلا رہی تھی۔ مومنہ بھی اپنی جاب سے بے حد خوش تھی۔ مومنہ نے بھی آخری روز وکالت کا سیاہ کوٹ پہن رکھا تھا۔ مومنہ کو بھی تقدیر نے سفید لباس پہنا دیا۔ فضہ اور مومنہ بلاشبہ جنت میں بیٹھی مسکرا رہی ہیں مگر زمین پر ان کے والدین تڑپ رہے ہیں۔ یہ قابل اور خوبصورت بچیاں اپنے ادھورے خواب اپنے ساتھ لے کر رخصت ہو گئیں اور ان کے والدین انہیں سرخ جوڑے میں دیکھنے کا خواب لئے مٹی کے ڈھیر پر بیٹھے کراہ رہے ہیں۔ تین جوان بیٹوں کے انتقال کا صدمہ جھیلنے والی عقیلہ نے کہا کہ ہم لوگ کیا کریں جن کے بچوں کا اوڑھنا بچھونا پاکستان میں ہے مگر زندگیوں کی ضمانت نہیں۔ فضہ کی طرح بیرون ملک جانے والے بچے جب وطن لوٹتے ہیں تو موت ان کی منتظر ہوتی ہے۔ قاتل گرفتار ہو بھی جائیں تو ان کو سزائے موت نہیں دی جاتی، ان کے پیچھے لمبے ہاتھ انہیں آزاد کرا لیتے ہیں اور جن کا بس نہیں چلتا ان کی مائیں مقتول کی ماں کے پیروں میں آکر بیٹھ جاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کو معاف کر دیا جائے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔
بے نصیب ماں قاتل کو معاف بھی کر دے تو دنیا والے جینے نہیں دیتے اور مقتول کے لواحقین پر ’’مک مکا‘‘ کا الزام لگا کر ان کی عزت کو نیلام کرتے ہیں، اس بھیانک کھیل میں میڈیا اور تھانے والے پیش پیش ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کچہری میں پیش آنے والے اس ہولناک واقعہ میں جاں بحق ہونے والے جج اور وکلاء کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ دنیا میںاموات کا جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی  شرح اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ تیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی اموات کی وجوہات مختلف ہیں۔ ینگ ڈیتھ کی وجوہات میں سر اول دہشت گردی‘ سٹریٹ کرائمز‘ موذی امراض اور ایکسیڈنٹ شامل ہیں۔ جس قدر بری خبریں اس دور میں سننے کو مل رہی ہیں‘ چند سال پہلے تک یہ صورتحال نہ تھی۔ اللہ سبحان تعالیٰ کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ پاکستان کے حالات دیکھیں تو لگتا ہے ملک الموت نے پاکستان میں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
برستی ہیں آنکھیں  تڑپتا ہے دل
جواں موت کس کس  کو  تڑپا گئی
وہ اک نرم و نازک حسیں پھول تھی
جو  دو  روز  گلشن کو  مہکا  گئی

No comments: