Powered By Blogger

Wednesday 20 July 2016

سارے وکیل ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں ؟ تحریر صفی الدین اعوان




وکیل ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں ؟  تحریر صفی الدین اعوان
لڑکی نے نفرت سے کہا کہ یہ سب وکیل ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں ؟  
لڑکی کے سوال کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا  میں نے خاموشی سے سرجھکا لیا
لڑکی نے کہا کہ گزشتہ  دو سال سے میں عدالت کے چکر لگا رہی ہوں میں ایک  یتیم  اور غریب لڑکی ہوں   ملازمت کرکے اپنا پیٹ پالتی ہوں جو کچھ کماتی ہوں وکلاء کی فیس میں چلاجاتا ہے   ان تمام باتوں کے باوجود  میرا مسئلہ حل نہیں ہوا مجھے پیسوں کا کوئی افسوس نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ  میرا کیس حل نہیں ہوا اور میری زندگی اس کیس کی وجہ سے اجیرن ہوگئی ہے  
قصہ مختصر یہ تھا کہ ایک  لڑکی نے  کراچی کے نامور وکیل  کے زریعے خلع کا کیس داخل کیا جس کے بعد وہ وکیل صاحب صرف پہلی تاریخ پر ہی حاضر ہوئے ایک معقول فیس  وصول کی اور کچھ عرصے کے بعد  فون  پر بتایا کہ  ڈسٹرکٹ کورٹس میں پیش ہونا اس کی شان کے خلاف ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کا وکیل ہے ل
پہلی غلطی کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ  اب کیس خاتون کو وکیل کرنا بہتر ہوگا کیونکہ ایک عورت دوسری عورت کے دکھ کو بہت بہتر سمجھتی ہے  جس کے بعد خاتون وکیل نے بھی اچھی خاصی فیس وصول کرنے کے باوجود میرا مسئلہ حل نہیں کروایا  وکیل صاحب نے  بتایا تھا کہ چار سے چھ ماہ کے اندر یہ کیس حل ہوجائے گا لیکن دوسال گزرنے کے باوجود آج تک اس کیس کا کوئی فیصلہ نہ  ہوا وکیل پیسے پیسے اور صرف پیسے کی بات کرتا ہے
جب کورٹ کی فائل کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ کیس  گزشتہ دوسال  سے سروس پر ہی چل رہا ہے اور وکلاء صرف  فیس وصول کرکے   اس لڑکی کو ہرماہ نئی تاریخ دے دیتے ہیں  اور سروس بھی نہیں کرواتے کہ کہیں یہ کیس ختم ہی نہ  ہوجائے
اس لڑکی کے اس کے علاوہ بھی عدالتی مسائل تھے  لیکن مجھے  بہت زیادہ شرمندگی ہوئی کہ  گنتی کے چند لیکن طاقتور  وکلاء کی غفلت کی وجہ سے اور ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے
میں نے ذاتی طور پر ہمیشہ  وکالت کو عبادت کا درجہ دیا ہے مجھے تو بزرگوں نے یہی سکھا یا کہ ایک  لمحے کی عدالت سوسال کی عبادت سے بہتر ہے  اور بلاشبہ اچھی  صاف  ستھری  وکالت عبادت  ہے اگر آپ ایک اچھی وکالت کرتے ہیں  اور اچھے لوگوں کی وکالت کرتے ہیں  مظلوم کو اس کا حق دلاتے ہیں تو یہ ایک ایسی  عبادت  ہے  جس  کے  بعد انسان کو جو سکون حاصل ہوتا ہے  وہ ناقابل بیان ہے

برطانیہ میں  پریکٹس کرنے والے وکلاء بتاتے ہیں کہ وہاں جہاں ایک اچھی عدلیہ موجود ہے وہاں ایک اچھی وکالت بھی موجود ہے سوال ہی نہیں  پیدا ہوتا کہ وکیل کلائینٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کا مس کنڈکٹ کرے   وہاں کلائینٹ کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اور وکیل کا لائیسنس کلائینٹ  کیئر  سے منسلک ہے   یہی وجہ ہے کہ وہاں عدالت میں وکیل کو اہمیت دی جاتی ہے  جج وکیل کی بات کا اعتبار کرتا ہے   اس کو عزت دیتا ہے اچھی وکالت  کی کوکھ سے اچھی عدلیہ جنم لیتی ہے اچھے وکلاء ہی اچھے جج ثابت ہوتے ہیں  دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ  اچھے وکلاء کی غیر موجودگی   میں اچھے جج عدالتوں میں آجائیں  پھر ہم بھی کتنے سیدھے سادھے ہیں ہم  وکالت تو پاکستانی اسٹائل والی کرتے ہیں اور عدالتوں سے توقع  یہ کیوں رکھتے ہیں کہ وہاں  فرشتے آجائیں گے عدالتوں میں جولوگ بھی موجود ہیں وہ جیسے بھی ہیں ہم میں سے ہی ہیں  وہ ہمارے جیسے ہی ہیں  ان کا رویہ  ہم جیسا ہی ہے  شاید ہم عدالت میں جا کر شیشے میں اپنی ہی تصویر دیکھ کر آتے ہیں جو ہمیں زرا بھی پسند نہیں آتی لیکن شیشہ تو شفاف ہے وہ تو بضد رہتا ہے کہ ہمیں ہماری ہی  تصویر دکھائے گا  
ہمارے  بہت سے ساتھی کلائینٹ کے پیسے کھاجاتے ہیں  اس کاکام  جان بوجھ کر لٹکا کررکھتے ہیں  مس کنڈکٹ پر فخر کرتے ہیں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کرتے رہتے ہیں   اس کے باوجود بھی ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ وکیل کو عدالت میں عزت کیوں نہیں ملتی؟  جج ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتا ؟ کراچی کی  عدالتوں میں     ہرروز ایک لاکھ سے زیادہ لوگ انصاف کی تلاش میں آتے ہیں اور ناکام لوٹ جاتے ہیں اس کے باوجود  ہم  سوچتے رہتے ہیں کہ وکالت کیوں زوال کا شکار ہوچکی ہے    لیکن مجھے  تو اس بات پر حیرت ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے لوگ اس کو بھی وکالت کا نام کیوں دیتے ہیں ؟ سارا دن سٹی کورٹ میں گزار کر   بھی کسی صاحب علم وکیل سے ملاقات نہیں ہوتی اور   پورا پورا سال گزرجاتا ہے کسی صاحب علم جج کا دیدار نہیں ہوتا  میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ  وہ جج جو صاحب علم ہے  جو انصاف کی سیٹ پر بیٹھ کرموجودہ  دور میں  انصاف کرتا ہے خدا کی قسم ایسے جج کا دیدار بھی عبادت ہے  کیونکہ ایک  لمحے کی عدالت سوسال کی عبادت سے بہتر ہے 
لڑکی کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا اس کی آنکھوں  میں بے شمار آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے  وکیل صاحب  
مجھے کیوں یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ ایک عورت دوسری عورت کے دکھ  کو بہتر سمجھتی ہے  یہاں تو سب ایک ہی جیسے ہیں  

آپ مجھے بتایئے کہ یہ سب وکیل ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں
اس بات کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا
ہم اچھے ہوتے تو شاید  سب اچھا ہوتا  کاش ہم اچھے ہوتے
صفی الدین اعوان

No comments: