Powered By Blogger

Thursday 28 July 2016

زندہ لاش ::: تحریر صفی الدین اعوان

زندہ لاش   ::: تحریر  صفی الدین اعوان 
آج سے تین سال پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ایسٹ میں موجود ایک زندہ لاش کو تحریری درخواست دے کر   کراچی کے ڈسڑکٹ کورٹس میں لفٹس اور معذور افراد کیلئے ریمپ لگوانے کی کوشش کی تھی اور اس سلسلے میں  چاروں اضلاع میں درخواستیں جمع کروائی تھیں  مایوس کن ملاقات کے بعد میں نے زندہ لاش کے نام سے ایک بلاگ لکھا تھا جس کا اعلٰی  سطح پر نوٹس لیا گیا تھا   اللہ کا شکر ہے ہماری کوششوں کے نتیجے میں  کراچی کے دو اضلاع میں  ریمپ  لگوانے کا منصوبہ مکمل ہوچکا ہے  اسی دوران ہمارے اس وفد میں شامل  چند لوگ آج عدلیہ کا حصہ بن چکے ہیں  ان کو بھی دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور تین سال کے دوران   کراچی کے چاروں اضلاع میں لفٹ کی تنصیب  کا سلسلہ  جاری ہے اور کراچی سینٹرل میں اس کا افتتاح بھی ہوچکا ہے 
تین سال پہلے اس بلاگ کی اشاعت کے بعد  عدلیہ نے  فوری طور پر لفٹ لگانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جو  بہت مکمل ہونے والا ہے  لیکن بدقسمتی سے وہ زندہ لاش آج بھی ہمارے عدالتی نظام کا حصہ ہے  تین سال پہلے کا  
بلاگ  اور اس زمانے   یعنی تین سال  پہلے کے سیشن جج  ایسٹ کی گھٹیا ذہنیت  ملاحظہ فرمائیں 



Monday, 21 October 2013

ارشد نورخان
سیشن جج ایسٹ کراچی خالی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا یوں محسوس ہوتا تھا وہ دور خلاؤں میں کچھ تلاش کررہا ہے  مجھے محسوس ہوا کہ   شاید سیشن جج صاحب زندگی ہی سے بیزار ہیں اور زندگی کی تمام خواہشات مرچکی ہیں زندگی ہی سے بیزار سیشن جج نے ہماری درخواست دیکھی  پڑھنے اور سمجھنے کی ناکام کوشش کی کہا  کیا چاہتے ہیں آپ لوگ اس درخواست کا مقصد کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ لاء سوسائٹی کی بانی ممبر بھی ہیں بریفنگ دی اور سیشن جج کو بتایا کہ عدالتوں میں معزور مریض ضعیف   اور ایسے لوگ ہرروز عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں جن کیلئے ریمپ یعنی سیڑھیوں کے ساتھ ایک ایسی ڈھلوان سطح بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جو لوگ وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں وہ عدالت میں باآسانی پیش ہوسکیں
ہمارے سامنے موجود زندگی سے بیزار سیشن جج نے  نہایت ہی بے زاری سے اس مختصر بریفنگ کو برداشت کیااور بےزاری سے کہا پھر کیا ہوگا
میں نے جواب دیا کہ پھر معزور افراد اور وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد آسانی سے عدالت میں پیش ہوسکیں گے
پھر کیا ہوگا؟ سیشن جج کا اگلا سوال تھا
سر  جی ہونا کیا ہے انسانیت کا تقاضہ ہے کہ معاشرے کہ معزور افراد کو ہم سہولت دیں ان لوگوں کے حقوق ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیئے ریمپ کی سہولت دینے سے کم ازکم گراؤنڈ فلور پر تو لوگ آسانی سے آ جا سکتے ہیں آج کل تو وہیل چیئر کو اٹھا کر لانا پڑتا ہے بہت مسائل ہیں لوگوں کیلئے   خاص طور پر معذور افراد تو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں
اور کچھ؟ اگلا سوال تھا
میں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں لفٹ کی سہولت دیں تاکہ   مزید آسانی پیدا ہو کیونکہ  ایک تو معزور افراد کی ضرورت ہے دوسرا بزرگ شہری اور بزرگ وکلاء بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے  لفٹ تو ویسے بھی ایک سہولت ہے
اچھا آپ کی درخواست ہایئکورٹ بھیج دی جائے گی کہ ایک نئی سوسائٹی بن گئی ہے جو یہ مطالبہ کررہی ہے سیشن جج نے آخر کار ٹالتے ہوئے کہا
میں نے کہا سر بات سوسائٹی کی نہیں بات ضرورت کی ہے کیا یہ چیز ضرورت نہیں  اور آپ کو خود سہولت دینی چاہیئے ہم نے تو صرف ایک مسئلے کی نشاندہی کی ہے
ٹھیک ہے میں آپ کی درخواست ہایئکورٹ بھجوا دوں گا
میں نے کہا لیکن سر ریمپ تو سیشن کی عدالت خود بھی بنوا سکتی ہے خرچہ ہی کتنا ہے ایک سادہ سی ڈھلوان سطح ہی تو بنانی ہے زیادہ سے زیادہ سیمنٹ کی ایک بوری خرچ ہوگی
زندگی ہی سے بیزار سیشن جج نے کہا میرے پاس خرچ کرنے کیلئے 10 روپے بھی نہیں
کسی بات پر ہلکی سی تکرار ہوئی تو ہم نے اجازت لی
یہ تھے سیشن جج ایسٹ کراچی جناب ارشد نورخان  جن کے پاس ہم درخواست لیکر گئے تھے کہ عدالتوں میں لفٹ اور ریمپ کی سہولت دی جائے تاکہ معزور افراد اور وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کو سہولت ہو
لیکن میٹنگ مایوس کن رہی  ایک  نفسیاتی  مسائل کا شکار زندگی سے بیزار زندہ لاش معزور افراد کو کیا سہولت دے سکتی ہے
اس کے بعد ایک نوجوان قایمقام سیشن جج کے پاس گئے  جو ایک اور ڈسٹرکٹ  کے سیشن جج ہیں بہت خوش ہوئے خوب حوصلہ افزائی کی ہماری بریفنگ کو سنا سمجھا ہمارے آنے سے پہلے ان کی گاڑی جانے کیلئے تیار تھی لیکن وہ رک گئے  بہت خوش ہوئے کہا اگر وکلاء  کوشش کرتے رہیں تو ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے واقعی مجھے آج احساس ہورہا ہے کہ ریمپ اور لفٹ نہ ہونے سے معزور افراد کتنے پریشان ہوتے ہیں اس مسئلے کو تو ترجیحی بنیاد پر ہی حل کرنا ہے بلکہ آپ لوگ ایسا کریں کہ جگہ کی نشاندہی کریں  تاکہ اس مسئلے کا حل نکال لیں  ہمارے وفد میں شامل ایک دوست نے کہا کہ فنڈنگ کا کیا ہوگا
وہ نوجوان سیشن جج مسکرایا بھائی لفٹ تو ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو کہ ہایئکورٹ ہی کرے گی لیکن ریمپ تو میں اپنی  ذاتی تنخواہ سے بھی بنوا سکتا ہوں صدقہ جاریہ رہے گا زیادہ سے زیادہ کتنا خرچ ہوگا میرے خیال میں تو اس ریمپ پر دوہزار روپے بھی خرچ نہیں  ہونگے
نوجوان جج کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا محسوس ہوا کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے  وہ ایک زندہ انسان تھا   اس میں زندگی کی حرارت تھی وہ عدلیہ کا روشن مستقبل تھا اس نوجوان قائمقام سیشن جج سے ملنے  کے بعد وہ مایوسی دور ہوگئی جو زندہ لاش کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی عدلیہ کو زندگی  کی حرارت سے بھرپور لوگوں کی ضرورت ہے  ایسے سیشن ججز کی ضرورت ہو جو چیلنج کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں
باقی سیشن ججز نے بھی مثبت جوابات دیئے
ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کسی سیشن جج کو ایڈیشنل جج بنا کر سندھ ہایئکورٹ بھیجا جاتا ہے تو سندھ ہایئکورٹ کا جاہ و جلال ایسا ہے کہ ججز اپنے پاس اس طاقت کو ہمیشہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب ان کو مستقل نہیں کیا جاتا واپس سیشن کورٹس بھیجا جاتا ہے تو یہ صدمہ ہی سیشن جج کو نیم پاگل کردیتا ہے ایک سال پہلے جو اچھا بھلا سیشن جج جاہ وجلال سے ہایئکورٹ جاتا ہے تو ہایئکورٹ  میں مستقل نہ ہونے کی صورت میں سیشن جج کی زندہ لاش ہی واپس آتی ہے کبھی یہ زندہ لاش ویسٹ میں آتی ہے جو ڈسٹرکٹ ویسٹ کراچی کو اس طرح تباہ کرکے جاتی ہے کہ اس کی بحالی آئیندہ پانچ سال ممکن نہ ہو اور ایسی ایک زندہ لاش نارکوٹکس کورٹ میں بھی ہے
سندھ ہایئکورٹ سے گزارش ہے کہ  ایسی زندہ لاشیں اسٹیل مل بھیجیں،پی آئی اے کو تحفہ دیں  ریلوے کا محکمہ ہے سندھ کا تعلیم کا محکمہ تباہ و برباد ہے اس کو مزید تباہ کرنے کیلئے  اپنی زندہ لاشیں بھیجیں کافی ادارے  آج بھی پاکستان میں ایسے ہیں جو سندھ ہایئکورٹ سے آنے والی زندہ لاشیں مزید تباہ کرسکتی ہیں  کیا ضروری ہے کہ تباہ حال ڈسٹرکٹ کورٹ کو مزید تباہ یا مکمل تباہ کرنے کیلئے بھیج رہے ہیں
سیشن جج بہت زمہ داری والا عہدہ ہے کراچی کے لاکھوں شہری پولیس کے رحم و کرم پر ہیں ہر روز غیر قانونی حراست کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے  لیکن جو واقعات رپورٹ ہوجائیں
کم ازکم ارشد نورخان جیسی زندہ لاش اہلیت نہیں رکھتی کہ کراچی کے شہریوں کو پولیس کے مظالم سے نجات دلاسکیں
اور جو شخص زندگی ہی سے بیزار ہوچکا ہو اس کو سیشن جج بنانے کی نہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے یا ریٹائر کرکے گھر بھیج دیں تاکہ ایک سابق جسٹس کی بھی توہین نہ ہو اور  نئے آنے والےزندگی کی حرارت سے بھرپور نوجوان سیشن ججز زیادہ بہتر انداز میں اپنی زمہ داری ادا کرسکیں

سندھ ہایئکورٹ سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل تلاش کرے کیونکہ  مستقل نہ ہونے والے ججز کو واپس سیشن جج بنا کر بھیجنا  درست نہیں ہے  اور سیشن عدالتوں پر خودکش حملہ کرنے کے مترادف ہے ایسے ججز کو انتظامی عہدوں پر رکھیں جوڈیشل اکیڈمی بھیج دیں بحثیت جج بھیجنے سے وہی مسائل پیدا ہونگے جو آج کراچی ایسٹ میں ارشد نورخان کو بھیجنے سے پیدا ہورہے ہیں

No comments: