Powered By Blogger

Saturday 9 July 2016

صوبہ سندھ کی عدلیہ میں کرپشن کی نئی لہر تحریر صفی الدین اعوان


صوبہ سندھ کی عدالتوں میں کرپشن کی نئی لہر۔۔۔۔۔۔
میرانام صفی الدین اعوان ہے  میں  گزشتہ تین سال سے اردو بلاگ لکھتا ہوں اور زیادہ تر روز مرہ کے عدالتی معاملات اور مسائل  کو اردو بلاگ میں زیر بحث لاتا ہوں ۔لاء سوسائٹی پاکستان کا اردو بلاگ عدالتی مسائل کا حقیقی عکاس  ہے   جب اردو   بلاگ لکھنا شروع کیا تو بہت کم لوگ پڑھتے تھے آہستہ آہستہ مستقل بنیاد وں پر لکھنے کی وجہ سے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا  آج دنیا بھر میں جہاں بھی انٹرنیٹ پر  اردو پڑھنے والے لوگ موجود ہیں  ایک بہت بڑی تعداد  لاء سوسائٹی پاکستان کے اردو بلاگ کی ریڈر ہے ۔ بلا مبالغہ یہ تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے    پچاس  فیصد ریڈر پاکستان  اور باقی  بیرونی  ممالک  سے ہیں حالیہ  دنوں میں  اس تعداد میں  قابل ذکر  اور مسلسل اضافہ ہواہے  لوگ پڑھتے ہیں اور اس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں   

وکالت میں میری  ذاتی دلچسپی کا مرکز کریمینل جسٹس سسٹم ہے ۔ کیونکہ کریمینل جسٹس سسٹم کو بہتر بناکر ہی کسی بھی  معاشرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے    میری  ذاتی  رائے  یہ  ہے کہ  پاکستان میں  کریمینل جسٹس  سسٹم کی سوجھ  بوجھ عدلیہ کے اندر   نہایت  ہی کم ہے کریمینل جسٹس سسٹم کے متعلق جاننے والوں کی   تعداد  نہ ہونے کے برابر ہے ۔   دوسری  طرف  پاکستانی  پولیس  دنیا  کی بہترین پولیس  ہے۔  کریمینل  جسٹس سسٹم پر مکمل  عبور رکھتی  ہے تفتیش میں کوئی ملک  پاکستانی پولیس  کا  مقابلہ نہیں  کرسکتا ۔پولیس کا مشاہدہ کمال کا ہے  پہلی نظر میں  ہی تاڑ لیتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے  ۔۔پولیس تفتیش اردو میں کرتی ہے سب کچھ اردو میں ہوتا ہے تو ان کو   ججز  کی طرح انگلش گرامر سیکھنے  کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن   سیاسی  مداخلت  اور سیاسی  پروموشنز نے پولیس کی کارکردگی  کو خراب کیا بہترین پولیس بدترین تفتیش کرتی ہے   کیس کمزور کرتی ہے رشوت لیکر   اصل ملزم  چھوڑ دیتی  ہے اور بے گناہوں کو  کیسز میں پھنساتی ہے   عدلیہ  ہی بہترین محتسب  ہے  جو دوران  کسی  بھی شہری  کے کیس کے ٹرائل   دوران  کسی بھی قسم کی زیادتی  کی وجہ سے پولیس کا  بہترین احتساب  کرسکتی ہے  کیونکہ  پولیس  کو  نااہل  عدلیہ  کی جانب سے احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے   اس لیئے پولیس   بھی  بے لگام ادارہ ہے
پاکستان میں تاج برطانیہ کی جانب سے دیا ہوا  بہترین  اور جدید ترین عدالتی نظام موجود ہے  لیکن اس  بہترین عدالتی نظام کو چلانے کیلئے اچھے جج موجود نہیں ہیں  نااہلوں سفارشیوں  کی پوری  ناکارہ  فوج ہے جو عدلیہ پر  مسلط  کردی گئی ہے اور وکلاء بھی کچھ کم نہیں ہیں   نااہلی  کے لحاظ سے یہ ان سے دوہاتھ آگے ہیں   
 یہی وجہ ہے کہ عدالتی نظام  ایک مذاق  بن چکا ہے  سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ  پولیس تفتیش کرتی ہے ملزم  گرفتار ہوتا ہے   پولیس شواہد جمع کرکے عدالت میں پیش کردیتی ہے  جس کے بعد  وہ کیس عدالت میں رجسٹر ہوتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد ملزم  کو باعزت طور پر بری بھی کردیا جاتا ہے ۔ کیس رجسٹر ہونے کے بعد ملزم کی  باعزت بریت یہ ظلم صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔
پاکستانی کرکٹرز  عامر اور سلمان بٹ وغیرہ کے خلاف جب برطانیہ کی عدالت میں  کیس رجسٹرڈ ہوگئے  تو   پاکستانیوں پر یہ حیران کن انکشاف  ہوا کہ عدالتوں سے سزا بھی دی جاتی ہے   کیونکہ  پاکستانیوں کے نزدیک  عدالت   صرف  تاریخ دینے کاکام کرتی  ہے دوسری طرف   اول تو  کریمینل  کیس برطانیہ کی عدالت میں  مشکل سے ہی رجسٹر ہوتا ہے  لیکن جب ایک بار رجسٹر ہوجائے تو پھر ملزم سزا سے نہیں بچ سکتا     کیس رجسٹر ہونے کا واضح مطلب ٹھوس شواہد کی روشنی میں  ملزم  کو یقینی    سزا ہے ۔ جبکہ ملزم کو فیئر ٹرائل کا پورا موقع ملتا ہے  یہاں تو تین تین  سال ملزم پر چارج ہی فریم نہیں ہوتا  جبکہ  کریمینل جسٹس  سسٹم کے ساتھ  یہ ظلم قیام پاکستان سے پہلے کیوں   ممکن نہیں تھا  اس وقت کیوں  سزائیں سنائی جاتی تھیں  یہی پولیس تھی یہی پراسیکیوشن اور یہی عدلیہ تھی
لیکن یہاں چیف جسٹس پاکستان(کراچی  بدامنی کیس کے دوران ) فخر سے  تسلیم  بھی کرلیتے  ہیں  کہ ہماری عدالتوں سے نوے فیصد   مقدمات پراسیکیوشن کی کمزوری  اور غفلت  کی وجہ سے   ختم ہوجاتے ہیں  حالانکہ اصل تعداد اب ننانوے فیصد تک  پہنچ گئی ہے     چیف صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ  ان کی عدالتوں نے  غفلت  کرنے والی پراسیکیوشن کے خلاف کیا کاروائی کی ہے ۔ کیا کسی  ایک بھی ذمہ دار کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی ہوئی ہے ۔ جن کی غفلت کی وجہ سے  نوے فیصد مقدمات  جن کی تعداد  لاکھوں میں  ہے ختم ہوگئے   لاکھوں ملزم  کیفر کردار تک نہ پہنچے  اور جرم کی افزایئش ہوتی رہی  یقین کریں کہ پاکستان کے  قابل احترام چیف جسٹس   صاحب بھی کریمینل جسٹس سسٹم کے بارے میں   کوئی خاص  معلومات نہیں رکھتے ورنہ  وہ ایسی غلط بات کرنے سے پہلے سوبار سوچ لیتے کہ    وہ  پراسیکیوشن  کی غفلت  کی  نہیں  بلکہ اپنی عدلیہ کی ناکامیوں  اور نااہلیوں  کو کس  طرح تسلیم کررہے ہیں   
سوال یہ ہے  کہ لاء سوسائٹی پاکستان کا اردو بلاگ ہی کیوں ۔۔۔۔۔۔۔پہلا جواب تو یہ ہے کہ میرا تعلق سوشل سیکٹر سے ہے تو اردو بلاگ  کے زریعے کوشش کی  گئی کہ  حقیقی مسائل کی عام عوام کی زبان  میں نشاندہی کی جائے   دوسرا یہ کہ    میری خواہش تھی کہ  پاکستان کا عدالتی نظام بہتر ہوجائے  اس لیئے کوشش کی کہ رائے عامہ بیدار کی جائے ۔ خیر عدالتی نظام نے کیا بہتر ہونا تھا البتہ آنے والا ہر دن بد سے بد تر  ضرور ہوتا چلا جارہا ہے ۔ لوٹ  مار کا ایک سلسلہ  ہے جو تیز سے تیز تر ہوتا چلاجارہا ہے ۔میں صرف اور صرف اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھتا ہوں  اور جو کچھ بھی لکھتا ہوں وہ میرا ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے    اس کے باوجود بھی عدلیہ میں جو لوٹ مار مچی ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی سامنے نہیں آپاتا
میں صرف ذاتی مشاہدات ہی  ایمانداری  سے بیان  کرنے کی  کوشش  کرتا ہوں۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ   گزشتہ چند سالوں کے دوران  خاموشی  سے پاکستان کے  عدالتی  نظام کو    کسی  دشمن ملک کا نظام  سمجھ  کر تباہ  و  برباد کردیا گیا ہے ۔  عدلیہ  حقیقی  معنوں میں اس وقت  تباہ  ہوئی   ہے جب  سفارش کی بنیاد پر این ٹی ایس   میں  بار بار فیل ہوجانے والے   نااہل ججز کو پروموشن دے دی گئی ہے ۔ان  پروموٹ  ہونے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد ذہنی مریضوں  اور ایسے  پاگلوں کی بھی  ہے جن کو اصولی طور پر  پاگل  خانے میں  ہونا چاہیئے تھا ۔ظلم یہ ہے  کہ اس تباہی  پر کوئی  آنسو بہانے والا  بھی نہیں  ہے  امید کی کسی بھی قسم کی کوئی کرن  روشن نہیں  ہے میں صرف المیہ ہی بیان کرتا ہوں جس کے نتائج کی مجھے کبھی کوئی پروا نہیں ہوتی  بے شمار ای میل آتی ہیں   بے شمار پیغامات آتے رہتے ہیں 
اردو بلاگ کے اس سفر کے دوران  مجھے چند اچھے ججز بھی ملے  لیکن اچھے ججز کی تعداد بہت کم ہے  المیہ تو یہ بھی ہے کہ آج کل مجسٹریٹ بھی اچھے نہیں ہیں حالانکہ ہمارے اکثر دوست میرٹ پر آئے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر فیصلہ کرنے کی طاقت  کیوں نہیں ہے یہ بھی  ایک المیہ ہی ہے  ابھی کل ہی تو ایک صاحب اختیار   نے  تنگ  آکر یہ لکھا ہے کہ

"جب صاحب اختیار بن گئے تو یہ پتہ چلا کہ صاحب  اختیار کتنے  بے اختیار ہوتے ہیں "

سب سے زیادہ خراب سینئر  وکیل ہیں ۔ یہ لوگ کبھی بھی  کیس نہیں چلاتے ہیں جان بوجھ کر کیس کو لٹکا کر رکھتے ہیں   اور یہ فیس ہی کیس کو لٹکانے کی لیتے  ہیں یہ بااثر بھی ہوتے ہیں نااہل   جج  بھی ان سے ڈرتے ہیں  اور اپنی  نااہلی کی وجہ سے  وکلاء کیخلاف کاروائی نہیں کرپاتے   

عدلیہ کی تباہی میں جو کسر رہ گئی تھی  وہ موجودہ  اندھا دھند پروموشن نے پوری کردی ہے اس بار تو عدالتی نظام کو یوں  مکمل طور پر تباہ و برباد کیا گیا ہے لوٹا  کھسوٹا  اور نوچا گیا ہے  جیسے کہ کسی دشمن ملک  کی فوج  نے عدلیہ پر چڑھائی کردی ہو   دوسرے الفاظ میں این ٹی ایس  فیل  ججز کو پروموشن  دے کر  سفارش اور اقرباء پروری کا  بلڈوزر   بے رحمی   اور بے دردی  سے پھیر دیا گیا  ہے ۔چڑھادیا گیا ہے ۔۔۔۔۔لیکن ایسا  ظلم  تو ایک  دشمن  ملک  دوسرے دشمن  ملک پر  جنگ  میں  فتح حاصل کرکے بھی نہیں کرتا ۔۔۔۔ جو سندھ ہایئکورٹ کے چند بدعنوان افسران نے عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے ملک  اور صوبے کے ساتھ  بدترین ظلم کیا ہے ۔۔ تاج برطانیہ جن کے ہم   غلام تھے وہ  دشمن  بھی تو ہمیں ایک بہترین اور جدید عدالتی نظام   تحفے میں دے کر چلا گیا  تھا  ایک  ایسا بہترین عدالتی نظام  جس کی بدولت  موجودہ   انڈیا پاکستان  اور بنگلہ دیش  جن کی کل موجودہ آبادی   ایک سوپچاس  کروڑ بنتی  ہے میں   اسی  عدالتی  نظام ہی کی وجہ سے مکمل امن قائم تھا  اگر انگریز  کے پاس آج بھی یہ ملک ہوتا تو آج بھی  مکمل امن ہوتا  جب  ہمارے  غیر ملکی آقاؤں تاج برطانیہ نے  یہاں سے جاتے وقت   ایک بہترین اور جدید  ترین عدالتی نظام ہمارے حوالے کیا تھا اس وقت  بھی تو یہی  عدالتیں  بالکل  ٹھیک کام کررہی تھیں   یہی  عدالتیں  ملزمان کو سزائیں بھی   سنارہی تھیں۔۔۔۔۔ نہ انسداد دہشتگردی کی الگ  سے  عدالت  تھی اور نہ کوئی فوجی عدالت اس کے پیچھے صرف ایک ہی راز تھا میرٹ میرٹ اور صرف میرٹ    
جبکہ ہمارے یہاں کرپشن کرپشن اور صرف کرپشن ، سفارش سفارش اور صرف سفارش  چاپلوسی چاپلوسی اور صرف چاپلوسی  ۔۔۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ  عدلیہ  کے اندر چاپلوسی کا عالمی ٹورنامنٹ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چاپلوسی تو اس وقت سب سے  بڑا ہتھیار بنی ہوئی  ہے اکثر صاحبان اختیار چاپلوسی کے معاملے میں عالمی ریکارڈ  توڑ چکے ہیں   ویسے بھی چاپلوسی ایک بین الاقوامی ہتھیار ہے
 جبکہ  تاج  برطانیہ  کے دور  میں جج  کی سیٹ  پر  چاپلوسوں  کا دور تک نشان  نہیں  ملتا تھا  صاحبان   علم   لوگ جج   کی سیٹ  پر  بٹھائے  جاتے تھے جن میں ہندوستانی بھی تھے اور انگریز بھی تھے  وہ صاحبان  علم جج آج بھی مشہور ہیں  اور ان کا نام آج بھی ادب  سے لیا جاتا ہے  جبکہ آج جرم کی سب سے بڑی  سرپرست  خود عدالتیں ہیں   
ہمارا اردو بلاگ صرف یہ سوال کرتا ہے کہ   آج  قیام پاکستان کے بعد  ہرسال کیس رجسٹر ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں  ملزمان  کو کیوں باعزت بری کردیا جاتا ہے ۔اور عدلیہ کے پاس سزا سنانے کی صلاحیت کیوں ختم  ہوگئی ؟  چیف جسٹس پاکستان صاحب  کیا آپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے  
آج   عدالتوں میں صاحب علم  شخص تلاش کرنے سے نہیں ملتا ۔ یہاں چاپلوسوں کی موج لگی ہوئی ہے
ہم نے انگریز سے مفت ملنے والے   دنیا کے  بہترین  عدالتی نظام کو برباد ہی کیا ہے ۔ مکمل تباہی  مکمل بربادی  ظلم تو یہ ہے کہ اس تباہی پر کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ہے   ایک عام وکیل کو ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پیشہ وکالت مسائل کا شکار ہے  وکالت کا تو نام ہی ختم ہوچکا ہے
اردو بلاگ  کے زریعے ہم  صرف اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں  ہم صرف اور صرف  مشاہدہ  اور مسائل بیان کررہےہیں    عدلیہ کی تباہی کا مرثیہ بیان کررہے ہیں جس صوبے میں آزاد  عدالتی نظام کی تباہی کا یہ عالم ہو کہ  اس صوبے کے چیف جسٹس کا بیٹا دن دیہاڑے اغواء ہوجائے اس  سے زیادہ عدالتی نظام کیا تباہ ہوگا    
ہم ظلمت شب کے اندھیروں سے نہیں ڈراتے لیکن نوید سحر بھی کچھ نہیں ہے
عدالتی نظام کو کس طرح برباد کیا جاچکا ہے  اور تباہی کس حد تک جاپہنچی ہے اس کی ایک  واضح مثال  مسز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں   ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی قابلیت کا معیار  کس قدر گرچکا ہے  ۔۔۔۔ این ٹی ایس میں بار بار فیل ہوجانا ۔۔۔ عدالت میں  جج کی سیٹ  پر بیٹھ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر    پھیپھڑوں کا سارا سارا زور لگا  لگا کر پوری طاقت سے  چیخنا   اورچلا چلا  کر جاہل عورتوں کی طرح  شور  وغل  مچانا  ۔۔۔ سارا سارا دن عدالت کو سر پر اٹھا کر رکھنا ۔۔۔۔۔ چیخ وپکار شور شرابہ  ۔۔۔۔یہی جاہل ہی ملی تھی ۔۔۔۔جب نظام تباہی کا شکار ہوجاتا ہے  تو اسی قسم کے جاہل  ہی نظام کی علامت بن جاتےہیں ۔ یہ سب کیا ڈرامہ  ہورہا ہے کس قسم کی عدالتیں اور ڈرامے ایجاد کیئے جارہے ہیں کس کس قسم کے پاگل  اور نفسیاتی  مریض  جج بنا کر مسلط کیئے جارہے ہیں      
لاء سوسائٹی پاکستان کا اردو  بلاگ  ایسے سوال اٹھاتا ہے جن کی سزا  پاکستان کی   کسی  ٹوٹی  پھوٹی  سڑک  پر موت تجویز کی گئی ہے ؟

No comments: