Powered By Blogger

Tuesday 11 February 2014

تین بجے



چند ماہ قبل جوڈیشل پالیسی کمیٹی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ کیا تھا وہ یہ کہ کسی بھی کورٹ سے انفرادی طور پر ریلیز آرڈر (ملزمان کی ضمانت یا بری ہونے کی صورت میں رہائی کا آرڈر) انفرادی طور پر نہیں کیا جائے گا بلکہ پورے ڈسٹرکٹ کے آرڈر اجتماعی طور پر ڈسٹرکٹ جج کے آفس میں جمع ہونگے اس کے بعد کورٹ کا نمائیندہ وہ احکامات لیکر جیل جائے گا جہاں وہ احکامات جمع ہونگے اس کے بعد قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اس کا پس منظر یہ تھا کہ عدالتی کرپشن کی وجہ سے بعض اوقات کورٹ سے جعلی احکامات بھی  جیل پہنچ جاتے تھے مختصر یہ کہ کچھ عرصہ یہ سلسلہ ٹھیک چلا اب   کسی "عقل مند" نے نیا سلسلہ شروع کیا ہے وہ یہ کہ جیل کا نمائیندہ کورٹ آئے گا اور ٹھیک تین بجے واپس روانہ ہوجائے گا اس کے بعد رہائی کے تمام احکامات غیر مؤثر ہوجائیں گے اور اگلے دن  جیل کا نمائیندہ آئے گا جس کے بعد ملزمان کو رہا کیا جائے گا کراچی کی عدالتوں میں ملزمان کی رہائی کیلئے کی جانے والی کاروائی کا آغاز ہی دوپہر دوبجے شروع ہوتا ہے سیشن کورٹس میں  ایڈیشنل  سیشن جج دو بجے دستاویزات کی تصدیق کا حکم دیتا ہے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ جو کہ  سٹی کورٹ ہی میں واقع حبیب بینک کی مجاز برانچ  میں موجود قومی بچت مرکز کے نمائیندے  خریدے گئے  ہوتے ہیں تصدیق کیلئے   بھیجے جاتے ہیں  وہاں دستاویزات کے پہنچتے پہنچتے ہی تین بج جاتے ہیں  سوال یہ ہے کہ اگر صرف تصدیق ہی کروانی ہے تو وہ تو مجاز کلرک بھی  بینک میں بھیج سکتا ہے  اگر وہ  دن 12 بجے تک دستاویزات بینک بھجوادے تو دوپہر دوبجے بینک کا تصدیقی  لیٹر بھی وصول ہوجائے گا جب ضمانتی پیش ہوگا تو ریلیز آرڈر تیار ہوجائے گا اور ملزم کی رہائی میں کوئی تاخیر نہ ہوگی  اس لیئے میں سندھ ہایئکورٹ سے گزارش کرتا ہوں کے دستاویزات کی تصدیق کیلئے متعلقہ اتھارٹی  کو لیٹر بھیجنے کا اختیار مجاز  کلرک کو دیا جائے اور جب دستاویزات تصدیق ہوکر مہر بند لفافے میں آجائیں تو اس کی سیل کھولنے کا اختیار صرف جج کے پاس ہونا چاہیئے تاکہ آج کل بہت سے ملزم قانونی کاروائی مکمل ہونے کے باوجود اس لیئے رہائی سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا رہائی کا حکم 4 بجے تیار ہوتا ہے  اس کے علاوہ یہ بھی  گزارش ہے کہ  سیشن جج شام بجے تک انتظار کریں  کیونکہ بہت سے ججز مختلف وجوہات کی بنیاد پر ریلیز آرڈر تاخیر سے تیار کرتے ہیں  وجوہات میں کورٹس میٹنگ ،ضمانت کیلئے دستاویزات تاخیر سے ملنا ، روٹین کے کیس چلانے میں تاخیر ہوجاتی ہے  اور بھی بہت سی وجوہات ہیں اس لیئے تین بجے کا وقت مقرر کرنا ظلم اور صرف ظلم ہے
قید بہت اذیت ہے جن کے باپ ،بھائی ،شوہر یا بیٹے کسی بھی وجہ سے جیل میں ہوں  ان کی اذیت کے بارے میں صرف سوچا ہی جاسکتا ہے قید بہت بڑی اذیت ہے  اللہ سب کو صرف اسی اذیت سے بچائے
آسانی پیدا کریں  لوگوں  کیلئے  اللہ ہی اجر دینے والا ہے
ایک نظر سے دیکھا جائے تو یہ بہت معمولی معاملہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے اصلاحات کے عمل کو ناکام بنانے کیلئے جان بوجھ کر اس قسم کے ڈرامے کھیل  کر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے جوڈیشل پالیسی بنانے والوں نے یہ کب کہا کہ تین    بجے  کے بعد کوئی رہائی کا حکم جاری نہیں ہوگا

صفی  

No comments: