Powered By Blogger

Thursday 27 February 2014

کراچی بار کی سالانہ تقریب حلف برداری اور عام آدمی


کل کراچی بار ایسوسی کی تقریب حلف برداری میں "عام آدمی" زیربحث رہا اور بالآخر سابق چیف  
جسٹس آف پاکستان سے والہانہ عقیدت رکھنے والے کراچی بار ایسوسی کے صدر محترم صلاح الدین احمد نے بھی کہہ ہی دیا کہ صرف چیف تیرے جان نثار بےشمار بےشمار کے نعرے لگانے سے  رول آف لاء نہیں آسکتا جب تک ڈسٹرکٹ کورٹ میں آنے والے  "عام آدمی" کو انصاف نہیں ملتا اس وقت تک ساری جدوجہد رایئگاں ہے  بالآخر کل محترم صلاح الدین احمد اور کراچی بارایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محترم خالد ممتازنے بھی موجودہ فرسودہ روایتی عدالتی نظام سے بیزاری کا کھلم کھلا اظہار کرہی دیا
بات یہ ہے کہ ایک معمولی سی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بے شمار تبدیلیاں آچکی ہیں چاقو ،خنجر اور چھری کی جگہ 9 ایم ایم کے جدید ترین پستول نے لے لی ہے ایک عام بندوق کی جگہ جدید ترین اسنائپر رائفل نے لے لی ہے جس میں نصب دوربین کی مدد سے کسی بھی انسان کو دور سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے
گھوڑے کی جگہ جدید ترین کاروں اور تیزرفتار موٹربائیک نے  لے لی جرم کے نت نئے طریقے ایجاد ہوگئے مجرموں نے اپنے آپ کو دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور جرائم کی دنیا نے بے تحاشا ترقی کی مافیا طاقتور ہوئے اور جدید ٹیکنالوجی نے ان کی مدد کی
اس کے برعکس عدالتی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی نیم دلانہ کوشش  بھی نہیں کی گئی ۔جرم صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں طاقتور نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں جرم طاقتور ہوا لیکن دنیا بھر میں جرم کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ بھی طاقتور ہوئی ہر جرم کا ایک توڑ ہوتا ہے  اور وہ توڑ پولیس اور عدلیہ کی جانب سے دریافت کیئے گئے پاکستان میں بھی پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں
لیکن آج بھی پولیس کی جانب سے جو تفتیشی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اس میں فنگر پرنٹ کا ذکر نہیں ہوتا اس رپورٹ میں سیل فون سے لیئے گئے مواد کو بطور شہادت پیش کرنے کی بات نہیں ہوتی کلوز سرکٹ کیمروں کی ویڈیوز صرف یوٹیوب اور نجی چینلز پر دکھانے کے کام آتی ہیں کہ عوام دیکھیں کے ڈاکو کس طرح دیدہ دلیری سے لوٹ مار کررہے ہیں اور آج بھی فرانسسک ڈپارٹمنٹ ایک مذاق ہی تو ہے یہاں میں صوبہ پنجاب کی تعریف کردوں کہ جہاں فرانسسک ڈیپارٹمنٹ پر باقاعدہ کام جاری ہے
چشم دید گواہ  عدالتوں میں ہمیشہ  سفید جھوٹ بولتے ہیں اور میں نے پیشہ ورانہ زندگی میں کسی چشم دید گواہ کو سچ بولتے کم ہی دیکھا ہے لیکن فرانسسک کی بنیاد پر تیار کی گئی شہادت کا علاج مشکل ہی ہوتا ہے   عدالت میں پیش ہونے والے حاجی ثناءاللہ کی شہادت کی بجائے ویڈیو شہادت زیادہ مؤثر ہوتی ہے ویسے بھی مافیا کی موجودگی میں ایک عام آدمی کا بطور گواہ پیش ہونا ناممکن ہی ہے میرے اپنے ایک کیس میں استغاثہ کے گواہ کو مخالف پارٹی جو کہ ایک مافیا گینگ وار سے تعلق رکھتے ہیں نے گزشتہ دنوں اغواء کیا اور اس کو شہادت سے روکا ماضی میں بھی چشم دید گواہ مارے جاتے رہے ہیں اسی طرح موبائل فون سے ڈیٹا لینا بھی ایک مذاق ہی ہے  اگر کسی کا قتل ہوجاتا ہے اور وہ آپ سے کسی بھی وجہ سے رابطے میں تھا تو سمجھ لیں آپ کاکام اتر گیا
بہت معذرت کے ساتھ اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہم نے  ہمیشہ یہی کہا کہ خامی نظام میں ہے فرد واحد بے بس ہے اگر کرنا بھی چاہے تو موجودہ فرسودہ نظام کسی کو انصاف دے ہی نہیں سکتا  لاء سوسائٹی کا مؤقف کبھی بھی یہ نہیں رہا کہ فلاں فرد واحد انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ  ہمارا مؤقف یہی ہے کہ موجودہ نظام کے تحت ایک عام شہری کو انصاف مل ہی نہیں سکتا  جب تک سسٹم میں احتساب کی روایت مضبوط نہیں ہوجاتی پبلک ڈیلنگ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی تبدیلی کی توقع رکھنا ہی عبث ہے
ہماری جدوجہد انشاء اللہ ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے  ہم نے فوری طور پر لاء سوسائٹی کے تنظیمی نیٹ ورک میں اضافہ کیا ہے نئے دوستوں کی شمولیت سے جہاں ایک طرف سوسایئٹی مضبوط ہوگی وہیں چند اہم شخصیات کی شمولیت سے ہمیں اپنے مطالبات حکام بالا تک پہنچانے میں آسانی ہوگی
اور انشاء اللہ بہت جلد  پہلے یوم تاسیس کے موقع پرایک اہم پیش رفت لاء سوسائٹی کی جانب سے ہونے جارہی ہے جس کے بعد انشاء اللہ لاء سوسائٹی پاکستان  کا کردار نہایت اہم ہوگا
تبدیلی ایک حقیقت بن چکی ہے اور انشاءاللہ تبدیلی ضرور آئیگی ظلم کے فلسفے پر قائم فرسودہ عدالتی نظام کے خاتمے کا وقت قریب آرہا ہے اور انشاء اللہ جدید سہولیات سے آراستہ  آن لائن عدلیہ کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا
ہماری آواز ایک عام آدمی کی آواز ہے  مجھے خوشی ہے کل کراچی بار ایسوسی ایشن نے ایک عام آدمی کے حق کی بات کی ہے چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ محترم مقبول باقر نے کل ایک آدمی کی ترجمانی کی اور چیف جسٹس آف پاکستان محترم تصدق حسین جیلانی نے ایک عام شہری کی بات کی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی

9 مارچ 2007 کی وکلاء تحریک کے بعد ہمارے خواب اتنی بار چکنا چور ہوئے کہ شاید اب امیدیں ہی دم توڑ چکی ہیں لیکن اس کے باوجود  امیدیں کچھ باقی ہیں ۔۔۔۔

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ نے درست لکھا ہے ۔ جب تک نچلی سظح پر انصاف ملنا شروع نہیں ہو گا معاشرہ درست نہیں ہو سکے گا ۔ اس انصاف کو ممکن بنانے کیلئے تین اداروں کو خدا خوفی سے محنت کرنا ہوگی ۔ ان میں سے ایک ادارہ ایسا ہے کے جس کے تعاون کے بغیر باقی دو بے بس ہو جاتے ہیں اور وہ ہے تفتیش کرنے اور چالان تیار کرنے والا ادارہ یعنی پولیس ۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جو پولیس مین نیک دلی سے محنت کرتا بھی ہے تو اُس کے راستہ میں بڑی رکاوتیں آتی ہیں ۔ مضافات میں بالخصوص سندھ میں اچھے تفتیش کار افسروں کو (اے ایس آئی سے ایس ایس پی) کو مختلف طریقوں سے ہلاک کروا دیا جاتا ہے یا کسی برائی میں ملوث ہونے کے بہانے نوکری یا اس علاقہ سے نکلوا دیا جاتا ہے ۔ کراچی میں تو اچھے وکلاء کو بھی ہلاک کیا گیا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ معاملہ تھانے میں پہنچنے سے قبل ہی تگڑی سفارش پہچ جاتی ہے اور پرچہ کاٹتے ہوئے اس میں ہیراپھیری کی گنجائش رکھ دی جاتی ہے
میرا ذہن کہتا ہے کہ یہ جنگ وکلاء ہی کو لڑنا ہو گی اور جب تک وکلاء کی اکثریت یکمشت ہو کر دلیری سے آگے نہیں بڑھے گی کچھ بدلنے کا نہیں ۔ میں دیکھا ہے کہ دیانتدار اور محنتی وکیل سے پولیس والے بھی ڈرتے ہیں

Unknown said...

دعا کریں کیونکہ اس وقت تبدیلی کی لہر فائینل مرحلے میں داخل ہوچکی ہے