Powered By Blogger

Monday 24 February 2014

ٹائیپسٹ کا رول کس کے پاس ہے؟


مشرف کے وکلاء کی ٹیم میں" دادا " استاد کی شمولیت سے ہی مجھے اندازا ہوگیا تھا کہ اب قابل احترام جسٹس صاحبان  کے لیئے یہ تو ممکن ہے کہ کسی دیوار کے ساتھ ٹکر مار اپنا سر پھوڑ لیں لیکن ٹرائل اسٹارٹ کرنا ناممکن ہی ہوگا کیونکہ جتنی ان کی عمریں ہیں اتنا تو دادا کا مقدمات کو لٹکانے کا تجربہ ہے ۔
اگلے دن  مشرف کے ایک  وکیل المعروف "دادا" استاد  ہایئکورٹ میں ہی مل گئے سلام دعا کے بعد پوچھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔دادا نے کہا کہ کچھ بھی نہیں  میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وردی والا نہیں بھاگے گا لیکن تم نے میری بات نہیں مانی تھی اور بلاوجہ خیالات اور قیاسات کے گھوڑے دوڑا دیئے تھے
 میں نے کہا کہ ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہے تو فرمانے لگے اس ڈرامے کا اسکرپٹ لکھنے کا اعزاز اس فقیر ،حقیر بے توقیر کو حاصل ہے
میں نے کہا فن  کار تو سارے چن چن کر لیئے ہیں ایسی اداکاری کرتے ہیں کہ ایک لمحے کیلئے تو مجھے بھی حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے دادا نے کہا مجبوری تھی اتنے بڑے ڈرامے کیلئے کوئی چھوٹاموٹا فن کار تو نہیں لیا جاسکتا تھا
میں نے دادا سے پوچھا اس ڈرامے میں "کیدو" کا کردار کون ادا کرے گا
دادا نے کہا  اس اہم ڈرامے میں کیدو یا ولن کی کوئی گنجائش نہیں ہے
میں نے پوچھا کہ  اس ڈرامے میں کوئی ایکشن یا ماردھاڑ بھی ہوگی
دادا نے کہا بنیادی طور پر میں نے اس کو ایک مزاحیہ ڈرامے کے طور پر لکھا ہے تاکہ خوشیوں کو ترسے ہوئے پاکستانی عوام کچھ دیر ہنس لیں  لیکن فن کار اس میں حقیقت سے قریب ترین اداکاری کررہے ہیں میں مطمئن ہوں  جہاں تک مار دھاڑ کا تعلق ہے تو فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن اپنے گھر کا بندہ قصوری ہی کیدو بنا ہوا ہے  حالانکہ اتنی اوورایکٹنگ ڈرامے میں شامل نہیں  تھی  سوچ رہا ہوں ۔۔۔سمجھ تو گئے ہونگے
میں نے کہا دادا لیکن  یہ میڈیا والے اور یہ جیو والے ان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے
دادا نے اسکرپٹ کھولا اور کہا اس ڈرامے میں جیو کا رول اہم ہے "یعنی پرائی شادی میں  عبداللہ دیوانہ ویسے اس کے ذمے نچوڑا ہوا لیموں بار بار نچوڑنے کا ہے  نچوڑا ہوا لیموں بار بار نچوڑنے سے  آپ سمجھ تو گئے ہی ہونگے کہ کیا ہوگا۔۔کیس اپنی موت آپ بھی مرجائے گا
ڈرامائی تشکیل میں کوئی مسئلہ تو نہیں آرہا؟ میں نے پوچھا
دادا استاد نے  مصنوعی خفگی سے پوچھا  میری موجودگی میں کوئی مسئلہ آسکتا ہے؟ میں نے کہا  آپ کی صلاحیتوں کا تو ایک زمانہ معترف ہے  آپ کی صلاحیتوں ہی کی وجہ سے ہی تو پورے ڈرامے کا اسکرپٹ ہی آپ سے لکھوایا گیا ہے
شروع میں محسوس ہوتا تھا کہ کچھ کلائمیکس نہ ہوجائے کوئی انہونی نہ ہوجائے کافی ڈر لگ رہا تھا  کبھی کبھی لگتا تھا کہ وردی والا بھاگ ہی  نہ جائے شروع شروع میں تو عوام کو محسوس ہوا کہ واقعی  کچھ نیا ہونے والا ہے
دادا نے کہا ابتدائی قسطیں عوامی دلچسپی کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں تھیں میں نہیں چاہتا تھا کہ عوام بور یت کا شکار ہوں لیکن اب اگلی چند قسطوں میں ڈرامہ شدید بوریت کا شکار ہوجائے گا  تاکہ وردی والے کو آگے پیچھے کیا جاسکے
کس فنکار کی کمی آپ شدت سے محسوس کرتے ہیں  میں نے پوچھا دادا استاد نے کہا ڈاکٹر شیرافگن نیازی زندہ  ہوتا تو آج میرا لکھا ہوا ڈرامہ  اتنا مقبول ہوتا کہ سڑکیں ویران ہوجاتیں لیکن ابھی بھی  ڈرامہ مقبولیت کے عروج پر ہے
میں نے پوچھا کہ اس سارے ڈرامے کا ہیرو کون ہے
دادا استاد نے کہا وقت  مرکزی ہیرو ہے
میں نے پوچھا کہ کوئی نیا فن کار شامل ہوگا دادا استاد نے کہا اصل میں پوری ٹیم اتنی گھل مل گئی ہے کہ اب نہ تو ڈرامہ ٹیم کے ممبران کسی نئے فن کار کا وجود برداشت کریں گے نہ ہی اسکرپٹ میں کوئی بھی معمولی ردوبدل  برداشت کرنے کیلئے راضی ہونگے
ویسے اکرم شیخ تو بے مثال اداکاری کررہا ہے
ہاں دادا استاد نے کہا ایسے فن کار صدیوں میں پیش ہوتے ہیں   لیجنڈ فن کار ہے
میں نے پوچھا کہ ڈرامے کی اگلی قسطوں میں کیا ہونے والا ہے
دادا استاد نے کہا اگر یہ بتادیا تو ڈرامے کا سارا مزہ خراب ہوجائے گا
اسی دوران استاد زماں دادا کا فون آگیا اور انہوں نے بے خیالی میں غداری اسکرپٹ مجھے تھمادیا میں نے جلدی جلدی اگلے صفحات کھولے
اور جسٹس صاحبان کا کردار تلاش کرنے کی کوشش کی تو صدمے سے گنگ ہوگیا
اچانک ہی دادا استاد نے  چیل کی طرح اسکرپٹ جھپٹا مارکر چھینا اور جانے لگے تو میں نے کہا دادا یہ کیا آپ سے یہ امید تو نہ تھی
اس کیس میں ٹائیپسٹ کا رول کسے دیا ہے؟
دادا نے اسکرپٹ بغل میں دابا اور اگلی قسط کی شوٹنگ کیلئے  تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا  روانہ ہوگیا

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

میں نے پچھلی تحریر کے بعد سوچا تھا کہ آپ کو مزید مشورہ نہیں دوں گا ۔ پھر خیال آ جاتا ہے مکہ اگر ایک انسان میری کوشش سے راہِ راست پر آ جائے تو شاید یہ میری بہتری کا سبب بن جائے

اللہ نے عملی زندگی میں داخل ہونے (1962ء) کے بعد سے اب تک بڑے بڑے ڈرامہ نگار ۔ ڈرامے اور فنکار دیکھنے کا موقع دیا ۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب بہترین سکرپٹ پر ڈرامہ کرنے والا بہترین فنکار جو اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا ۔ ڈرامہ چوٹی پر پہنچنے کے تین دن بعد ایسا لڑھکا کہ اللہ کی پناہ ۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب کمانڈو نے اس خیال سے کہ وہ زیادہ نہیں آدھی صدی تو بادشاہ رہے گا ہی ۔ اُس نے اسلام آباد کے منصوبہ کا ستیاناس پھیر کر سِکستھ اور سیونتھ ایوینو بنوائیں تھیں کہ وہ بغیر رکاوٹ کے ان پر چلتا ہوا اپنے قلعہ نما گھر میں پہنچ جایا کرے گا ۔ مگر ان میں سے کسی پر چلنے کی اسے مُہلت نہ ملی البتہ ایف 6 ، 7 اور 8 اور جی 6 ، 7 اور 8 میں رہنے والے آج بھی اُس کی جان کو رو رہے ہیں
کل تو بہت دور ہوتا ہے محترم ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایک لمحہ بعد کیا ہونے والا ہے ۔
میں پھر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ کسی کی ہجو لکھنا چھوڑ دیجئے ۔ اگر آپ قانون یا انسان کی بلکہ اپنی بہتری چاہتے ہیں تو آج سے فیصلہ کیجئے کہ کوئی جھوٹا مقدمہ نہیں لڑیں گے اور اپنے علم سے اُن شریف (میں نے غریب نہیں کہا) لوگوں کی مدد کیجئے جنہیں ڈرامے باز لوگ اور وکیل مقدمات میں اُلجھا دیتے ہیں ۔ اِن شاء اللہ آپ ہمیشہ صحتمند خوش اور خوش حال رہیں گے

safi said...

محترم افتخار اجمل صاحب آپ کی رائے کا شکریہ وکالت ایک فن ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے ایک معمولی طالبعلم کی حیثیت سے یہ فن سیکھنے کی کوشش ہی کررہے ہیں آج تک تو یہی کوشش کی کہ حق کا ساتھ دیں اور مظلوم کی مدد کرتے رہیں میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو صحت اور خوشیاں عطا فرمائے آپ کی رائے اچھی ہے لیکن جو میرے دل میں بات آجائے وہ میں لکھے بنا رہ نہیں سکتا پھر بھی کوشش کرتا ہونکہ اپنی سوچ پر پہرہ بٹھادوں