کراچی بار ایسوسی ایشن کے اشتراک سے لاء سوسائٹی پاکستان
اور اس کی پارٹنر آرگنائزیشنز مبشر بھٹہ ہیومن رائٹس اور لارڈز لاء میگزین کے
زیراہتمام ایک روزہ سیمنار بعنوان سندھ
آرمز ایکٹ 2013 ـ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بار اور عدلیہ کا کردار " سے کراچی بار ایسوسی ایشن کے شہداء
پنجاب ہال میں منعقد ہوا
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے لاء سوسائٹی پاکستان کے ایگزیکٹو
ڈائریکٹر صفی الدین اعوان ایڈوکیٹ
ہایئکورٹ نے کہا کہ
وفاق کی جانب سے قانون سازی
موجود ہونے کے باوجود سندھ اسمبلی نے متصادم قانون سازی کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز
کیا ہے اور معزز شہریوں کو جرائم کے خاتمے کے حق سے روک کر پولیس اور سرکاری
گواہان کی موجودگی میں تلاشی کا حق دیکر شہریوں کو پولیس کے رحم وکرم
پر چھوڑدیا ہے پولیس کے اتنے اختیارات سندھ کی تاریخ
میں کبھی نہیں رہے ہیں عملی طور پر
صوبہ ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے پولیس کراچی میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
کررہی ہیں اس صورتحال میں عدلیہ کو کسی پالیسی کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی کراچی با ر ایسوسی ایشن کمیشن تشکیل دے کرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو
ریکارڈ کرے اور عام شہریوں کو پولیس کے
مظالم سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے
مبشر بھٹہ ہیومن رائیٹس کے چیرمین مبشر بشیر بھٹہ نے
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کراچی بار کی منتخب کابینہ کا سیمینار کے انعقاد کیلئے شکریہ ادا کیا اور کہا
کہ ضابطہ فوجداری کی زیردفعہ 103 جس میں
معزز شہریوں کی موجودگی میں گواہی تلاشی
لینے کا حق دیا گیا ہے کو بتدریج ختم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور
اہلیان سندھ بار کونسلز اور عدلیہ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وفاق
سے متصادم آئین سازی کو ہر سطح پر چیلنج کیا جائے گا
محمد شفیق ایڈوکیٹ
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد شفیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ کراچی
سمیت پورے سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہوچکی ہیں صوبہ عملی طور پر
پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے غیر قانونی حراست عام ہوچکی ہے موجودہ صورتحال نہ صرف بار
ایسوسی ایشنز بلکہ عدلیہ کیلئے بھی ایک
امتحان بن چکی ہے
عشرت سلطان ایڈوکیٹ
وومین پرٹیکشن نیٹ
ورک کی چیئر پرسن مس عشرت سلطان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وومین
پرٹیکشن نیٹ ورک خواتین وکلاء کی فلاح وبہبود کیلئے اپنی عملی جدوجہد جاری رکھے گا
اس قسم کے سیمینارز کا مقصد آگہی پیدا
کرنا ہے اور عوام الناس کو حقائق سے آگاہ
کرکے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہے میں کراچی
بار ایسوسی ایشن کی شکر گزارہوں جس نے وومین پروٹیکشن نیٹ ورک کو سیمینار منعقد
کرنے کی اجازت دی اور تعاون کیا
خالد ممتاز جنرل سیکرٹری کراچی بار ایسوسی ایشن
کراچی بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری خالد ممتاز نے کہا
کہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ کراچی میں پولیس اسلحہ ایکٹ کے تحت جھوٹے مقدمات بناتی ہے اور
معصوم شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرتی ہے سندھ آرمز ایکٹ 2013 کی منظوری کے بعد کراچی کے
شہری پولیس کے رحم و کرم پر ہیں اور
انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ پر پریشر ڈالنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے لیکن عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے دور رہ کر کسی پالیسی کا حصہ
بنے بغیر فیصلے میرٹ پر کرنے چاہیئں کیونکہ
یہ عدالتیں ہی ہیں جن سے عوام کو توقعات وابستہ ہوتی ہیں کراچی بار ایسوسی
ایشن روزانہ کی بنیاد پر سیشن ججز سے رابطے میں ہے اور انشاء اللہ بار اور بنچ
شہریوں کو مایوس نہیں کرے گے سندھ آرمز ایکٹ کے غلط استعمال کا آغاز 17 جنوری 2014
سے ہوا جب سندھ ہایئکورٹ کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کی غلط تشریح کرنے کی کوشش کی
گئی تو کراچی بار نے فوری طور پر اپنا کردار ادا کیا اور اس حوالے سے اپنا رول ادا کیا اس حوالے سے
خصوصی عدالتوں کا قیام بھی مناسب
نہیں خصوصی عدالتوں کے قیام سے شکوک پھیل
رہے ہیں صرف سزاؤں میں اضافہ کرکے جرائم کے خاتمے کی توقع رکھنا مناسب نہیں اور
حقیقت سے نگاہیں چرانے کے مترادف ہے عام شہری کے تعاون اور شمولیت کے بغیر جرائم
کا خاتمہ ناممکن ہے کراچی بار ایسوسی ایشن کی منتخب قیادت کی ہمیشہ سے یہ اولین
ترجیح رہی ہے کہ وہ لیگل ایجوکیشن کے حوالے کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی
کرے اور اس حوالے سے ہم " لاء سوسائٹی پاکستان" کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں گے
بیرسٹرصلاح الدین احمد صدر کراچی بار ایسوسی ایشن
کراچی بار ایسوسی
ایشن کے صدر بیرسٹرصلاح الدین احمد نے
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے ہمیشہ لیگل ایجوکیشن سے متعلق پروگرامات اور سیمینارزکی حوصلہ افزائی کی ہے موجودہ قیادت
بھی یہ سلسلہ جاری رکھے گی اور اس حوالے
سے کراچی بار ایسوسی ایشن برٹش کونسل اور
ملکی اور غیر ملکی اداروں سے رابطے میں
ہیں جن کے تعاون سے ہم کراچی بار میں وکلاء کیلئے
لیگل ایجوکیشن کے حوالے سے پیشہ
ورانہ ٹریننگ پروگرامات کا آغاز جلدکریں گے اور انٹرنیشنل معیار کے مطابق وکلاء
کی ٹریننگ کا آغاز کریں گے کراچی بار کے
وکلاء کی فلاح و بہبود ہماری پہلی ترجیح ہے
سندھ آرمز ایکٹ کے حوالے سے وکلاء اور کراچی کے شہریوں میں
جو بے چینی پائی جاتی ہے اس سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں
مجھے یہ جان کر اور مشاہدہ کرکے سخت افسوس ہوا جب ایک
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج صاحبہ نے
ایک ہی دن ضمانت کے 10 آرڈرز کیئے لیکن
کسی بھی آرڈر میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں
ہے صرف ٹائیٹل تبدیل کرکے ایک ہی مسترد
شدہ آرڈر تقسیم کردیا گیا ہے وکلاء اپنے
مقدمات میں تیاری کرکے آتے ہیں اور اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ جات پیش کرتے ہیں وہ ان
کی محنت ہوتی ہے اگر ان کے دلائل کو سنے بغیر مقدمات کا فیصلہ کیا جائے گا تو اس
قسم کی صورتحال کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی مجھے یہ جان کر بھی افسوس ہوا
کہ جرائم کے خاتمے کیلئے عام شہری کا
کردار قانونی طور پر ختم کیا جارہا ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی ہم
عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہے لیکن یکطرفہ فیصلے کسی صورت کراچی بار کو قبول
نہیں ججز کو چاہیئے کہ وکلاء کو سنا
جائے ان کے دلائل احکامات صادر کرتے وقت عدالتی حکم نامے کا حصہ بنائے جایئں اس کے بعد
انصاف اور قانون کے مطابق ایک جج کا حق بنتا ہے کہ وہ جو مناسب سمجھے فیصلہ کرے
شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کراچی بار
ایسوسی ایشن نے ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے
سید وقار شاہ سینئر ایڈوکیٹ ہایئکورٹ
سید وقار شاہ
ایڈوکیٹ نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ
سندھ حکومت نے سندھ آرمز ایکٹ 2013 کو ایک
خصوصی قانون کے طور پر متعارف کروایا ہے لیکن خصوصی عدالتوں کا ریکارڈ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ماضی
میں ہمیشہ نامناسب ہی رہا ہے ماضی
میں شہر سے دور دراز بنائی گئی خصوصی عدالتوں میں نہ صرف وکلاء کے دلائل نظر انداز کیئے جاتے رہے ہیں بلکہ ایسے فیصلے دیئے جاتے ہیں جن سے شہری حقوق
کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن اس بار
خصوصی عدالتیں شہر سے الگ تھلگ بنانے کی بجائے سٹی
کورٹ میں ہی قائم کی گئی
ہیں
خصوصی عدالتوں میں پیش کیئے جانے والے دلائل عام عدالتوں سے
مختلف ہوتے ہیں اس لیئے وکلاء کو چاہیئے کہ وہ اپنی
تیاری نئے حالات کے مطابق کریں سندھ آرمز
ایکٹ کے حوالے سے تشکیل دی گئی خصوصی عدالتوں میں پیش ہوکر فرانسسک رپورٹ کے حوالے
سے اپنے دلائل دیں صرف فرانسسک رپورٹ ہی کی بنیاد پر ملزم کو فوری ریلیف مل سکتا
ہے کسی بھی خصوصی عدالت میں عام دلائل جو روزمرہ کے کیسز میں پیش کیئے جاتے ہیں وہ
پذیرائی حاصل نہیں کرتے اس کی بجائے صرف
ٹیکنیکل بنیادوں پر ہی مقدمات کی صحت کو
مشکوک ثابت کیا جاسکتا ہے خصوصی عدالتوں
کے فیصلوں کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرکے
تصادم میں وقت ضائع کرنے کی بجائے سندھ ہایئکورٹ سے شہریوں کو انصاف دلائیں
سندھ ہایئکورٹ نے شہری حقوق کے تحفظ کیلئے ہمیشہ روشن کردار ادا کیا ہے
حیرت انگیز طور پر سندھ آرمز ایکٹ 2013کے زریعے شہریوں کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت کا راستہ بند
کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے ۔عام شہریوں کی موجودگی میں ملزمان کی تلاشی کے
حوالے سے ضابطہ فوجداری کی سیکشن 103ایک حرمت رکھتی ہے اور شہری حقوق کے حوالے سے
دنیا بھر میں اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی ہیں انگریز
نے ضابطہ فوجداری میں تلاشی کے وقت عام شہری کی موجودگی اس لیئے لازمی قرار دی تھی کہ عام شہری بھی جرائم
کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں شہریوں کی عملی شمولیت کے بغیر جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے موجودہ حالات میں جب حکومت گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی اور
اس حوالے سے گواہوں کے تحفظ کا بل بھی
صورتحال تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو عدلیہ کو چاہیئے کہ ویڈیو کانفرنس کے
زریعے شہریوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرے تا کہ
گواہوں کو تحفظ فراہم کرکے ان کی
شمولیت کو جرائم کے خاتمے کیلئے یقینی
بنایا جاسکے ویڈیو کانفرنس کے زریعے شہریوں کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت کو
آسان بنایا جاسکتا ہے صرف سزاؤں میں اضافہ کرنے اور شہریوں کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت روکنے سے جرم ختم نہیں ہوسکتا اس کیلئے ایک
دوررس پلاننگ کی ضرورت ہے موجودہ صورتحال میں بار ایسوسی ایشن کا کردار اہمیت
اختیار کرگیا ہے کیا صوبائی حکومت
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی قانون سے متصادم قانون سازی کرسکتی ہے ؟ کراچی بار
ایسوسی ایشن کو سندھ آرمز ایکٹ 2013 کی قانونی اور آئینی حیثیت کا بھی جائزہ لینا
چاہیئے
ایک خصوصی
عدالت کی
خاتون جج کی جانب سے اپنے اسٹینو کو یہ ہدایت نامہ جاری کرنا کہ تمام کے تمام وکلاء کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرکے تمام وکلاء کو ضمانت کی ایک ہی مسترد شدہ درخواست کی کاربن کاپیاں صرف ٹائیٹل تبدیل کرکے حکم
نامہ تقسیم کرنا خصوصی عدالت کی جانب سے شہریوں کے ساتھ ایک بدترین مذاق کے
مترادف ہے ضمانت کے احکامات جاری کرتے وقت
سپریم کورٹ اور اعلٰی عدالتوں کی ہدایات کا احترام لازم ہےکراچی بار کو اس حوالے
سے اپنا متحرک کردار ادا کرنا ہوگا وکلاء کے دلائل سنے بغیر حکم نامے جاری کرنا
بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے
اسلحے کے جن ذخائر کی برآمدگی کے دعوے پیش کیئے جاتے ہیں وہ
مال خانے میں موجود نہیں ہیں محسوس ہوتا ہے کہ مال خانے میں اس حوالے سے سنگین بے قاعدگی موجودہے کیس ختم ہونے کے بعد اسلحہ
سرکاری ملکیت بن جاتا ہے کراچی بار ایسوسی
ایشن عدلیہ کے زریعے ماہانہ بنیادوں پر اسلحے کی نیلامی کو یقینی بنائے اور ممنوعہ
بور کے اسلحہ کو تلف کیا جائے
عام مشاہدہ ہے کہ منشیات اور شراب وغیرہ کسٹم حکام نظر آتش
کرکے ضائع کرتے ہیں لیکن کیس ختم ہونے کے
بعد مال خانے میں موجود اسلحے کے ذخائر کہاں جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے
کہ پولیس وہ اسلحہ دوبارہ شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کیلئے استعمال
کرتی ہے اس کے شواہد بھی موجود ہیں بار کا کردار اس حوالے سے بھی اہم ہے
پروگرام میں سوال
جواب کا سیشن ہوا اور آخر میں لاء سوسائٹی پاکستان کی لیگل ایجوکیشن کمیٹی کے
ڈائریکٹر کبیر احمد صدیقی نے شرکاء کاووٹ
آف تھینکس ادا کیا
No comments:
Post a Comment