Powered By Blogger

Saturday 8 February 2014

کیا ہم ایک لمحے کیلئے استاد اما م دین گجراتی کو اردو بلاگنگ کا بانی تسلیم کرسکتے ہیں



  کیا ہم ایک لمحے کیلئے   استاد اما م دین گجراتی کو اردو بلاگنگ کا بانی تسلیم کرسکتے ہیں
جہاں تک میں سمجھا ہوں مکمل بے ساختگی کے ساتھ کسی چھوٹے موٹے جاوید چوہدری ،نصرت جاوید قسم کے سکہ بند شرابی کبابی اور کالم نگاری کے علاوہ ٹھیکیداری کے شعبے میں نام پیدا کرنے والے ہارون الرشید جیسے کپتان کے خود ساختہ ترجمان اور اس قسم کے دیگر  اردو کالم نگاروں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی  الگ دنیا آباد کرنے کا نام اردو بلاگنگ ہی تو ہے لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے
استاد امام دین گجراتی بھی تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے پرائمری پاس تھے لیکن بی اے(باب ادب)،ایم اے  (موجد ادب)اور پی ایچ ڈی  (فاضل ڈگری)کی اعزازی ڈگریاں رکھتے تھے اور ڈنکے کی چوٹ پررکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ جرمنی سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والا ان کا ہم عصر شاعر اور ہمارا شاعر مشرق سر علامہ اقبال بھی ان کے سامنے کچھ نہیں بیچتا تھا لیکن ان سے ملنے لاہور بھی گئے تھے اور ایک  اردوشعر بھی پنجابی آمیزش کے ساتھ لکھا تھا
گزشتہ دنوں عامر خاکوانی  صاحب کا گناہ کبیرہ بھی زیر بحث رہا کہ انہوں نے چند اردو بلاگرز کی تحاریر شائع کرکے ایک آغاز کیا میں صرف یہی کہوں گا کہ ان کا ایک اچھا قدم ہے  لیکن  اصل مسئلہ سیاسی قسم کے کالم نگاروں کو متعارف کروانا ہے اس کیلئے پرنٹ میڈیا کے پاس دو ہی راستے ہیں کانٹ چھانٹ کے تحاریر شائع کرے  لیکن اس طرح تحریر کا حسن ختم ہوجائے گا  دوسرا یہ کہ  اردو بلاگرز سے معاہدہ کرکے تحاریر شائع کریں کیونکہ ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے متنازعہ معاملات پر یا کسی شخصیت پر براہ راست تنقید سے عدالتی فورم موجود ہیں اور اکثر کالم نگاروں اور اخبارات  اپنے کالم نگاروں کی وجہ سے عدالت کی سیڑھیاں ہی چڑھتے رہتے ہیں  میرے خیال میں پرنٹ میڈیا ایسا رسک نہیں لے گا اور وہ روایتی کالم نگاری تک ہی محدود رہے گا لیکن تحریر تو وہی ہے جو دھوم مچادے ہلا کر رکھ دے سب کو
یار لوگ بہت خوش ہیں کہ بہت کچھ شائع ہوگیا لیکن بھائی جان کچھ بھی تو شائع نہیں ہوا۔اصل جنگ تو اس وقت شروع ہوگی جب دو مخالف طبقات آمنے سامنے ہونگے یعنی اردو کالم نویس اور اردو بلاگرز لیکن  یہ بھی ایک تاریخی رسک ہی ہوگا کیونکہ یہ ایک پہل کرنے والی بات ہے اگر آئیڈیا ہٹ ہوا تو سپر ہٹ ہوگا اور اگر ناکام ہوا تو ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا لیکن مجھے لگتا یہ ہے کہ آئیڈیا سپر ہٹ ہوگا
اب انتظار کریں کہ کوئی اس معاملے پر رسک لے جہاں تک بات ہے حدود کی اور قیود کی تو اس پر لوگ راضی ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی  اس کی مثال سعادت حسن منٹو صاحب ہیں میں نے کہیں پڑھا کہ ایک بار وہ کسی پبلشر کے پاس گئے اور ان سے پانچ روپے  روٹی کھانے کیلئےمانگے    پبلشر نے کہا کہ ایک شرط ہے پہلے ایک اچھی سی کہانی  لکھ کر دو تو انہوں نے صفحہ پکڑا اور فوراً ہی ایک کہانی تخلیق کردی پانچ روپے لیئے اور کھانا کھا کر واپس آگئے پبلشر نے کہانی پڑھی بہت پسند آئی پندرہ روپے مزید دیئے اور کہا کہ تین کہانیاں اور لکھ دو تو  غربت کا شکاراپنے وقت کے عظیم ترین لکھاری نے  پندرہ روپے واپس کرتے ہوئےایک تاریخی جملہ کہا "جب دوبارہ بھوک لگے گی تب لکھ کر دوں گا"
مکمل بے ساختگی کے ساتھ اور سر پیر کے بغیر   لکھنے والے اردو بلاگرز  کو کیا دنیائے صحافت قبول کرلے گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا

استاد امام دین گجراتی فرماتے ہیں  
دو ہی گھڑیاں زندگی میں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد



10 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ کی یہ تحریر روائتی وکیلوں والی ہے ۔ آپ نے مُردوں کو کیوں گھسیٹنا شروع کر دیا ؟ اُستاد امام دین کے ساتھ جو کچھ منسوب کیا جاتا ہے وہ سب کچھ اُن سے سرزد نہیں ہوا ۔ امام دیں مسلم لیگ کے زبردست سپورٹر تھے اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کی بہت عزت کرتے تھے ۔ علامہ سے ملنے کے بعد اُنہوں نے لکھا تھا ۔ ہم نے بھی لاہور جا کر دیکھا علامہ سر محمد اقبال ۔ باتیں بھی کرتا جاتا تھا حقہ بھی پیتا جاتا تھا نال نال ۔

Unknown said...

کون مردہ ؟ کیا آپ کی مراد استاد امام دین گجراتی سے ہے آپ تو دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن جہاں تک بات ہے کسی کو خاطر میں نہ لانے کی تو استاد کا ایک مقام تھا اور واقعی وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے

Unknown said...

علامہ اقبال ان کے ہم عصر شاعر تھے اور میں نے ذکر کردیا کہ وہ ان سے ملنے لاہور بھی گئے تھے اور مزکورہ شعر کا حوالہ بھی دیا ہے سوال یہ ہے کہ بانگ درا کے مقابلے میں بانگ دہل کیوں لکھی ؟؟

افتخار اجمل بھوپال said...

حضور ۔ اگر آپ اپنی تحریر کو ذرا غور سے پڑھیں تو اس میں استاد امام دین کی تعریف نہیں تضحیق کی گئی ہے ۔ اگر آپ اپنی تحریر کو لکھ کر محفوظ کر لیا کریں اور چند دن بعد اسے بغور پڑھ لیا کرین تو امید ہے آپ کچھ بہتر لکھنے لگ جائیں ۔ خاطر میں نہ لانا اور کسی سے نہ ڈرنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ میرا خیال ہے آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ استاد امام دیں کسی سے ڈرے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے ۔ میں تو صرف آپ کی رہنمائی کی کوشش کرتا ہوں ۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہین وقتی واہ واہ یا قارئیں کے دلوں مین عزت ۔
اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم رکھے

افتخار اجمل بھوپال said...

اُستاد امام دین کے مجموعہ کلام کا نام بانگِ دہل نہیں تھا بلکہ ببانگِ دہل تھا جو مین نے سکول کے زمانہ میں پڑھی تھی ۔ اور یہ نام اُنہوں نے خود نہیں رکھا تھا بلکہ پبلشر نے رکھا تھا ۔ اگر آپ کسی کی بات کرنے سے پہلے کچھ مستند کتب کا مطالعہ کر لیا کریں تو آپ میں اور آجکل کے صحافیوں مین کچھ فرق محسوس ہو گا ۔ آپ اپنی تحریر میں خوشبو پیدا کرنے کیلئے لکھتے ہیں ”جاوید چوہدری ،نصرت جاوید قسم کے سکہ بند شرابی کبابی اور کالم نگاری کے علاوہ ٹھیکیداری کے شعبے میں نام پیدا کرنے والے ہارون الرشید“ لیکن اس فقرے سے تو تعفن اُٹھ رہا ہے
آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کا یہ بلاگ انصاف اور نیکی پر آپ کی ٹھیکیداری کا علمبردار ہے ؟

Unknown said...

بانگ دہل یا ببانگ دہل مجھے پڑھنے کا موقع نہیں ملا جاوید چوہدری کو تو ہمارے بہت سے لوگ کچھ نہیں سمجھتے لیکن میں تو سمجھتا ہوں اور جہاں تک نصرت جاوید صاحب کی بات ہے تو تو ان پر بھی اسی حوالے سے تنقید کی جاتی ہے اور اس کا وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں اور جہاں تک ہارون صاحب کی بات ہے تو عمران خان کی زیرنگرانی انہوں نے واقعتاً ٹھیکیداری یعنی کنسٹرکشن کاکام شروع کیا اور انہیں کافی نفع بھی ہوا ہے لیکن وہ ایک الگ معاملہ ہے اصل بات تو بیچ میں ہی رہ گئی

Unknown said...

ٹھیکیداری کے حوالے سے میں نے کبھی نہیں سوچا لیکن میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور دوسرے کی رائے کا احترام کرتا ہوں جہاں تک انصاف کے معاملے پر
ٹھیکیداری کی بات ہے تو میں فقط اپنی رائے کا اظہار ہی کرتا ہوں وہ رائے ہی ہوتی ہے بہت سے لوگ اتفاق کرتے ہیں ان کا شکریہ بہت سے لوگ عدم اتفاق کرتے ہیں لیکن میں اس کی بھاری قیمت چکاتا ہوں اور میں بخوشی ادا کرتا ہوں میری بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اردو بلاگرز باقاعدہ طور پر اخبارات میں لکھنا شروع کرسکیں گے برابری کی سطح پر اور کیا روایتی کانٹ چھانٹ برداشت کرنا ممکن ہوگی بلاگرز کیلئے

افتخار اجمل بھوپال said...

محترم ۔ آپ نے لاء سوسائٹی کے نام سے بلاگ بنایا اور مقصد نظامِ عدل کی اصلاح بتایا تھا ۔ یا شاید یہ بھی میں غلط سمجھا ۔ لیکن اگر درست سمجھا تھا تو شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا یا مجھے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے ۔ میں صرف یہ کہنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں کہ آپ نے جو راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا اُس پر چل نہیں پا رہے ۔ سوائے 2 یا 3 تحاریر کے شاید ہی دوسروں کی برائیاں گننے کے سوا کچھ اور لکھا ہو ۔ اگر آپ باقی سب کچھ بھول کر صرف اصلاح کی طرف توجہ دیں تو اللہ کامیابی دے گا اور قارئین بھی دل سے آپ کی قدر کریں گے ۔ جو کچھ آپ لکھ رہے ہیں وہ تو وہ صحافی بھی لکھتے آئے ہیں جن کی آپ نے تضحیک کی ہے ۔ میں آپ کیلئے اب صرف دعا ہی کر سکتا ہوں جو کچھ قلم سے کر سکتا تھا اُس کی آج آخری کوشش ہے

Unknown said...

آپ کی دعا کا بہت شکریہ ہاں واقعی جو راستہ اختیار کیا وہ کامیاب نہیں ہوا اس لیئے ہم نے فیلڈ میں رہ کر جدوجہد شروع کی ہے اس کے کامیاب اثرات سامنے آرہے ہیں کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بلاگ لکھ دیا تھا کہ اب میں لاء سوسائٹی کیلئے نہیں لکھوں گا ایک لحاظ سے دیکھیں تو صحافیوں کی تضحیک ہے لیکن غور سے دیکھئے تو شاید مطلب کچھ اور ہی تھا نصرت جاوید صاحب کو سوشل میڈیا نے ہی شرابی مشہور کیا جس پر انہوں نے انکار نہیں کیا اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ جاوید چودھری کو سوشل میڈیا کے لوگ لفٹ نہیں کراتے اس لیئے ان کے لیئے چھوٹے موٹے جاوید چودھری کا لفظ استعمال کیا اور یہ کوئی تضحیک نہیں جاوید چودھری کا ایک مقام ہے کوئی انکار نہیں کرسکتا کچھ واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں اب براہ راست بات نہیں کرتا
آپ نے بات کی دوسروں کی برائی گنانے کی بھائی آج تک کسی نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے؟ اور کسی جسٹس حاضر پر الزام لگانا بچوں کاکام سمجھتے ہیں بہت آسانی سے آپ نے لکھ دیا کہ دوسروں کی برایئاں گننے کے سوا کچھ اور لکھا ہو حضور والا وہ جسٹس تھے ایک منٹ میں مجھے طلب کرسکتے تھے میں نے ایک بھاری قیمت ادا کی ہے ا ور جہاں تک بات ہے تبدیلی کی تو ہم نے وقت کے ساتھ کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں میں اس معاملے پر تفصیل سے بات کرسکتا ہوں

Unknown said...

آپ کی دعا کا بہت شکریہ ہاں واقعی جو راستہ اختیار کیا وہ کامیاب نہیں ہوا اس لیئے ہم نے فیلڈ میں رہ کر جدوجہد شروع کی ہے اس کے کامیاب اثرات سامنے آرہے ہیں کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بلاگ لکھ دیا تھا کہ اب میں لاء سوسائٹی کیلئے نہیں لکھوں گا ایک لحاظ سے دیکھیں تو صحافیوں کی تضحیک ہے لیکن غور سے دیکھئے تو شاید مطلب کچھ اور ہی تھا نصرت جاوید صاحب کو سوشل میڈیا نے ہی شرابی مشہور کیا جس پر انہوں نے انکار نہیں کیا اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ جاوید چودھری کو سوشل میڈیا کے لوگ لفٹ نہیں کراتے اس لیئے ان کے لیئے چھوٹے موٹے جاوید چودھری کا لفظ استعمال کیا اور یہ کوئی تضحیک نہیں جاوید چودھری کا ایک مقام ہے کوئی انکار نہیں کرسکتا کچھ واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں اب براہ راست بات نہیں کرتا
آپ نے بات کی دوسروں کی برائی گنانے کی بھائی آج تک کسی نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے؟ اور کسی جسٹس حاضر پر الزام لگانا بچوں کاکام سمجھتے ہیں بہت آسانی سے آپ نے لکھ دیا کہ دوسروں کی برایئاں گننے کے سوا کچھ اور لکھا ہو حضور والا وہ جسٹس تھے ایک منٹ میں مجھے طلب کرسکتے تھے میں نے ایک بھاری قیمت ادا کی ہے ا ور جہاں تک بات ہے تبدیلی کی تو ہم نے وقت کے ساتھ کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں میں اس معاملے پر تفصیل سے بات کرسکتا ہوں