Powered By Blogger

Saturday 11 January 2014

بارہ اکتوبر کے واقعات اور مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ

کہتے ہیں تاریخ کی اخلاقیات نہیں ہوتی ۔اگر تاریخ میں زبردستی اخلاقیات داخل کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ہم آئین پاکستان بناتے  بناتے ملک ہی گنوا بیٹھے اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔جس کے بعد جب متفقہ آئین بنا تو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنے کی سزا ،سزائے موت اور اس عمل کو سنگین غداری  قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود ضیاء الحق نے آئین کو توڑا اور مارشل لاء نافذکردیا وہ گیارہ سال تک آئین کی توہین کرتے رہے بدقسمتی سے ضیاءالحق اس دنیا میں ہی نہ رہے تو نہ ہی ان کے ٹرائل کا کوئی مطالبہ ہوا اور نہ ہی ہمارے سیاستدانوں نے  "ضیاءالحق کے مارشل لاء  اورآئین توڑنے والے ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی خصوصی عدالت تشکیل دی حالانکہ اگر  ان کے خلاف ایک عدالتی فیصلہ موجود ہوتا تو آج پاکستان کی سیاست آمریت کے سائے سے محفوظ ہوتی
12 اکتوبر 1999 کے واقعات نہایت ہی پراسرار ہیں۔
مشرف کو منتخب وزیراعظم نے برطرف کردیا اور ایک نیا آرمی چیف مقرر کردیا۔ آرمی نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور منتخب وزیراعظم کو تختہ ہی الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا دوسری طرف امید کی آخری کرن بھی اس وقت ڈوب گئی جب عدلیہ نے  پی سی او کے تحت  حلف اٹھانے کے بعد  منتخب وزیراعظم کا ساتھ نہ دیا بعد ازاں مشرف کی زیر نگرانی بننے والی اسمبلی نے  ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کردیا
بالآخر 9 مارچ 2007 کے اقدامات کے بعد قوم اٹھ کھڑی ہوئی  اسی دوران مشرف نے 3 نومبر 2007 کو مشرف نے ایمرجنسی لگا دی عدالت نے ان اقدامات کی توثیق نہ کی ایک عدالتی فیصلہ دیا اور عدلیہ کی بحالی کے بعد پاکستان کی تاریخ کا سب سے سخت ترین فیصلہ پی سی او ججز کے خلاف آیا جس  کے بعد  بہت بڑی تعداد میں ججز گھروں کو چلے گئے
وکلاء تحریک کے دوران "آرٹیکل سکس-مشرف فکس "کا نعرہ زور و شور سے بلند ہوا

  میاں صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ آرٹیکل سکس  کے تحت کاروائی کرکے مارشل لاؤں کا راستہ بند کردیں گےجس کے بعد بالآخر 2013 میں  پاکستانی حکومت  نےمشرف کے خلاف ایک خصوصی عدالت تشکیل دے کر 3 نومبر 2007 کے اقدامات کے خلاف مقدمے کا آغاز کردیا  مشرف تاحال عدالت میں پیش نہیں ہوئے ان کی جلاوطنی یا بیرون ملک فرار سمیت کئی افواہیں گردش کررہی ہیں۔اسی دوران  ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آگیا کہ عدالتی کاروائی 12 اکتوبر 1999 سے شروع کی جائے  کچھ اسی قسم کا مطالبہ شجاعت صاحب نے کیا ہےلیکن پبلک  اور میڈیا کی ڈیمانڈ ہے کہ جلد از جلد مشرف  کو "فکس" کردیا جائے
12 اکتوبر کی ذد میں آرمی آرہی ہے یہ تاثر ہی غلط ہے  بلکہ فوج سمیت تمام ذمے داران زد میں آرہے ہیں
12 اکتوبر کی  بغاوت  کی زد میں آرمی کی وہ چین آف کمانڈ زد آرہی ہے جس نے اس وقت کے منتخب وزیراعظم کو حراست میں لیا
12 اکتوبر کو آئین پاکستان سے ہونے والی بغاوت کی  زد میں ایک فریق  منتخب وزیراعظم ہے جس کے اقدامات کے نتیجے میں دو اداروں میں تصادم اسقدر بڑھا کہ کہ دو ادارے آپس میں ہی ٹکرا گئے اور کیا منتخب وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف کو عجلت میں برطرف کرکے  جنرل ضیاءالدین کو نیا آرمی چیف بنانا  کیا یہ آئینی قدم تھا
12 اکتوبر کو ہونے والی  بغاوت  کی روشنی میں پاکستان کی تاریخ کا ایک مظلوم ترین "افتخار چوہدری "بھی سامنے آرہا ہے جس کا نام جسٹس سعیدالزمان  صدیقی ہے جس نے  مشرف  کےمارشل لاء کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالا تھا  قوم کو ایک اصلی ہیرو بھی مل جائے گا  اور قوم سعید الزمان کا کردار جاننے سے اس لیئے محروم رہی کیونکہ اس وقت میڈیا  کے ساتھ ساتھ ساتھی ججز نے ان کا ساتھ نہ دیا
12 اکتوبر 1999 کی بغاوت کی زد میں وہ ججز بھی آرہے ہیں جنہوں نے  پی سی او کے تحت حلف لیاتھا  اور جنہوں نے مشرف کے اقدامات کی نہ صرف توثیق کی بلکہ اس کو من مانے اقدامات کیلئے  تین سال کا وقت بھی دیا
12 اکتوبر کی بغاوت کی زد میں  مشرف کی اسمبلی کے وہ ممبران بھی آرہے ہیں  جنہوں نے سترہویں آئینی ترمیم پاس کی اور اس وقت کی جعلی اپوزیشن  اور جعلی  قائد حزب اختلاف بھی زد میں آرہا ہے جنہوں نے آئینی ترمیم کیلئے مشرف کا ساتھ دیا
12 اکتوبر کی بغاوت کے بعد 2007 میں حالات دوبارہ خراب ہوگئے اور مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کردی
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین توڑنے پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جارہا ہے محسوس ہوتا ہے کہ  میاں صاحب نے    صرف "شرعی حیلہ" پورا کیا ہے بہت سے لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات کی زد میں  براہ راست آرمی کی چین آف کمانڈ آرہی ہے اور آرمی اس مقدمے کو قبول نہیں کرے گی۔ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اس وقت کی پوری چین آف کمانڈ ریٹائر ہوچکی ہے  اور اکثریت اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے  دوسری طرف اکثر ججز بھی ریٹائر ہوچکے ہیں تیسرا اہم ترین مسئلہ وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے مشرف کے ساتھ مل کر قوم کو بے وقوف بنائے رکھا ان کو تو لازمی بغاوت کے مقدمے کی زد میں آنا چاہیئے۔ جرنیلوں سے پہلے پھانسی کے حقدار وہ  سیاستدان ہیں جنہوں نے ایک آمر کے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا بدقسمتی دیکھیں کہ  میڈیا مسلسل  بغاوت کے مقدمے کو 12 اکتوبر 1999 سے شروع کرنے کی مخالفت کررہا ہے
کیا یہ بہتر نہ ہوکہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جائے میں جانتا ہوں کہ 12 اکتوبر سے مقدمہ شروع کرنے میں کسی قسم کی کوئی آئینی پیچیدگی نہیں  ہے اور یہ مقدمہ کسی حد تک پیچیدہ ہوجائے گا لیکن عدالتوں کا تو کام ہی پیچیدہ مسائل کو حل کرنا ہے    یہ قوم جاننے کا حق رکھتی ہے کہ وہ کونسے حالات تھے جن کے تحت ایک منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑی لگا دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان میں اتنے بحران پیدا ہوگئے کہ ہم آج تک ان سے نہیں نکل سکے اور آج بھی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں
یہ تاثر دینا درست نہیں کہ آرمی ناراض ہوجائے گی کیونکہ عدلیہ 3 نومبر کے غیر آئینی اقدامات کا ساتھ دینے والے ججز کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے ۔ اگر کاروائی 12 اکتوبر 1999 سے شروع کی جائے تو قومی اسمبلی کی حزب اقتدار پارٹی کے ساتھ ساتھ  اس وقت کی متحدہ مجلس عمل کے نام سے جعلی اپوزیشن  بھی زد میں آئے گی میرے خیال میں مولانا فضل الرحمٰن  سمیت 300 کے قریب سیاستدانوں کے خلاف عدالتی فیصلہ آجائے  تو  آسمان نہیں ٹوٹے گا  یقین کریں مفاد پرست مولویوں  اور مفاد پرست سیاستدانوں کے خلاف کاروائی سے تو پورے پاکستان میں مٹھائی  تقسیم ہوگی دوسری طرف قوم کو ان سیاستدانوں سے بھی نجات مل جائے گی جنہوں نے پاکستان میں مفاد پرستی کی سیاست کو فروغ دیا  ان سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اگر آرمی کی چین آف کمانڈ  اور  پی سی او ججز کو بھی سزا سنا دی جائے تو تمام لوگ عبرت کا نشانہ بن جائیں گے آرمی  کے  افسران ریٹائر ہوچکے ہیں اور سنہء 2000 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کی اکثریت بھی ریٹائر ہوچکی ہے اگر ان تمام لوگوں کو  مقدمہ چلانے کے بعد شواہد کی روشنی میں فرد جرم عائد کرنے کے بعد  صرف غدار ہی ڈیکلیئر کردیا جائے تو  صرف یہ طعنہ ان کی آنے والی نسلوں کیلئے ہی کافی ہوگا سزائے موت دینا ضروری نہیں ہے  
ہوٹل پر کھانا کھانے جایئں تو کھانے کے دوران اکثر لوکل ہوٹل "گریبی " یا سپلیمنٹ دیتے ہیں  لیکن گریبی کی قیمت نہیں وصول کی جاتی بلکہ صرف کھانے کی قیمت وصول کی جاتی ہے اسی طرح 3 نومبر 2007 تو صرف ان اقدامات کی "گریبی" یا سپلیمنٹ ہے جو 12 اکتوبر کو شروع کیئے گئے تھے
کوشش کی جارہی کہ  مشرف چلاجائے اس صورتحال میں بلاول کو بچہ سیاستدان سمجھنے والوں کو سمجھ جانا چاہیئے کہ وہ بچہ نہیں ہے کیوں کہ اس کے سیاسی بیانات جو بظاہر بچگانہ نوعیت کے ہیں مشرف کے فرار میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کیونکہ اب فوج بھی نہیں چاہتی کہ مشرف کے جانے کے بعد کوئی بچہ یہ طعنے بازی کرے کہ وردی والا بھاگ گیا   اگر مشرف پر فرد جرم عائد ہوگئی جس کا بظاہر کوئی امکان نہیں تو پاکستان میں ایک نئی عدالتی تاریخ رقم ہوسکتی ہے
شرعی حیلہ کے طور شروع کیا گیا مقدمہ ایک تاریخی مقدمہ بھی بن سکتا ہے اور مشرف کے بیان کے بعد عدالت کے لیئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ 12 اکتوبر 1999 کو نظر انداز کرے
اگر مقدمہ چلا تو آگے چل کر فرد جرم  ضرورتبدیل ہوگی جس کی ضابطہ فوجداری میں پوری گنجائیش موجود ہے  اور فوجیوں سمیت  تمام ذمے داران کٹہرے میں موجود ہونگے
نہ صرف فوجی چین آف کمانڈ بلکہ وہ سارے سیاسی مداری اور مشرف کے  پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز زد میں ہونگے جبکہ 3 نومبر کے سپلیمنٹری مارشل لاء اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے خلاف پہلے ہی فیصلہ سامنے آچکا ہے
یہ مقدمہ طویل عرصے چلے گا ۔ کم ازکم بھی دس سال تک  یہ مقدمہ چل سکتا ہے میری خصوصی عدالت سے درخواست ہے کہ  وہ اپنی معانت کے لیئے کم ازکم تین ایسے وکلاء یا ریٹائرڈ ججز کی خدمات حاصل کریں جو  فوجداری نظام پر گرفت رکھنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں

کیونکہ کریمنل جسٹس   پر عبور رکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے ۔اور یہ خداداد صلاحیت کم لوگوں میں ہوتی ہے یہ ایک ایسی حیرت انگیز صلاحیت ہے جو سچائی کو پاتال سے بھی ڈھونڈ کر لے آتی ہے۔ میڈیا پر جو  قانونی ماہرین رائے دیتے نظر آتے ہیں ان کی اکثریت کو پتہ ہی نہیں کہ کریمنل جسٹس سسٹم کیا ہوتا ہے  12 اکتوبر کے اقدامات کو زیربحث لانا اس لیئے بھی ضروری ہے کیونکہ اگر خدانخواستہ کل پھر کوئی فوجی آئین پاکستان کو توڑنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کرکے  ججز سے پی سی او کے تحت حلف لینے کے بعد اگر ایک بار پھر  "بے توقیر"  عدالتی فیصلہ لے لے اور اس فیصلے کو ایک لنگڑی لولی اسمبلی سے آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دے دے تو پھر کیا ہوگا  مستقبل کے آمر کے  پاس تو صرف یہی دلیل ہوگی کہ عدالتیں اس طریقہ کار کے تحت مارشل لاء کی حمایت کرچکی ہیں اور وہ تاریخ سے شہادت پیش کرے گا کہ 12 اکتوبر کی فوجی بغاوت کے خلاف ایک منتخب حکومت نے نہ ہی آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کی اور  بند الفاظ میں حمایت کی 

1 comment:

افتخار اجمل بھوپال said...

میں آپ کی تحریر کے قانونی پہلو پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ۔ البتہ واقعات سے متعلق کچھ حقائق حادثاتی طور پر میرے علم میں ہیں جو آپ کے علم میں لانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ حکومت کا تختہ اُلٹنے کا منصوبہ پرویز مشرف اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ بنا کر سری لنکا گیا تھا کہ اگر مہم جوئی ناکام ہوئی تو وہ واپس پاکستان نہیں آئے گا ۔ منصوبہ پر عمل 12 اکتوبر کی دوپہر کو شروع کیا گیا جب نواز شریف اسلام آباد سے باہر (شاید ملتان میں) تھا ۔ یہ بھی منصوبہ کا حصہ ہو سکتا ہے تاکہ نواز شریف فوری ردِ عمل نہ کر سکے ۔ جب کسی نے نواز شریف کو آگاہ کیا تو اُس نے واپسی اختیار کی اور اسلام آباد پہنچ کر پرویز مشرف کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن تیار کروایا جب اُسے صدر کو فیکس کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی تمام ٹیلیفون لائینز کام نہیں کر رہیں ۔ چنانچہ نواز شریف خود صدر صاحب کے پاس گیا اور صدر کے علم میں لا کر واپس آیا ۔ اس وقت سہ پہر کے پانچ سوا پانچ بج چکے تھے ۔ شام چھ بجے سے قبل ہی فوجی کمانڈو وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو گئے تھے اور ساڑھے 6 بجے شام نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا