Powered By Blogger

Sunday 19 January 2014

سپہ سالار اور قاضی القضاء کی بیوی کی دوستی کا المناک انجام تحریر: صفی الدین




اسلام آباد میں دوسہیلیوں کی دوستی بہت مشہور تھی دونوں ہی کا تعلق  صف اول کے  گھرانوں سے تھا بلکہ دونوں خواتین

ہی اپنے اپنے حساب سے خاتون اول بھی تھیں۔آٹھ سال کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن ہو شاید ہی کوئی ایسی تقریب ہو جس میں یہ دونوں سہیلیاں الگ نظر آئی ہوں ۔ دونوں کی صبح ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نہیں ہوتی تھی جاننے والے  کہتے تھے تھے کہ یہ دوستی کا رشتہ بہنوں سے بڑھ کر تھا ۔دونوں  بہنیں ہی ایک دوسرے کی احسان مند بھی تھیں اور ایک دوسرے کی مشکور بھی تھیں لیکن دونوں  سہیلیوں نے ایک دوسرے پر کبھی کوئی احسان نہیں جتایا تھا۔لوگ ان کی دوستی پر رشک کرتے تھے   اور بہت سی ہم عصر خواتین  حسد بھی رکھتی تھیں  ان میں سے ایک  پنجاب کی مسز چوہدری ٹھیٹھ پنجابن اور دوسری دہلی کی  راجپوت  یہ عجیب دوستی تھی ایک ایسی دوستی جو لوگوں سے کسی صورت ہضم نہیں ہوتی تھی
ایک کا شوہر قاضی القضاء تھا تو دوسری کا شوہر ایک اسلامی فوج کا سپہ سالار تھا  سپہ سالار بھی ایسا جو شاید دوبارہ کبھی نہ پیدا ہو سپہ سالار اور قاضی القضاء کی دوستی کے حوالے سے ویسے تو راوی خاموش ہے لیکن ایک خاص موقع پر قاضی نے سپہ سالار کو غازی کا درجہ دیا تھا اور سپہ سالار نے قاضی کی اس ادا سے  ہی متاثر ہوکر اس کو حاجی کہا تھا اور بعد میں سپہ سالار نے قاضی کو قاضی القضاء کا درجہ دے دیا تھا کچھ ناسمجھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ قاضی کو قاضی القضاء بنانے میں  بیگمات کی دوستی کا بڑا ہاتھ تھا
8  مارچ 2007 کی ایک سرد شام تھی اسلام آباد کے ایک سرد لان میں دونوں خواتین آپس میں گپ شپ کررہی تھیں ان کے ساتھ چند  فوجی اور قاضیوں کی بیگمات بھی ساتھ تھیں  ایک سات سال کی پیاری سی بچی بھی وہاں کھیل رہی تھیں ایک انتہائی بااثر اور اہم شخصیت نے اس میٹنگ کا اہتمام کیا تھا کہ ایک  سات سال کی  غیر ملکی بچی  جو کہ پیدائشی جرنلسٹ ہے کی خواہش ہے کہ سپہ سالار کی اہلیہ اور قاضی القضاء کی بیوی کے ساتھ کچھ وقت گزارے ان کے ساتھ باتیں کرے اور ان کا چھوٹا سا انٹرویو بھی کرے  اگرچہ بات حیرت انگیز تھی کہ ایک سات سال کی بچی کیسے صحافی بن سکتی ہے لیکن اہم شخصیت نے قائل کرہی لیا  کہ یہ بچی پیدائشی طور پر جرنلسٹ ہے اور اس میٹنگ میں ان خواتین کو بھی کسی نہ کسی طرح شامل کرلیا گیا جو اس مثالی اور غیر معمولی دوستی سے حسد رکھتی تھیں ۔ وہ بچی بہت ہی پیاری تھی  اس کی باتیں بہت ہی دلچسپ تھیں خواتین کو میٹنگ میں بہت مزا آرہا تھا بچی نے بہت سی پیاری پیاری باتیں کیں   وہ واقعی پیدائشی صحافی تھی سرد شام میں محفل گرم تھیں لیکن صرف دو خواتین کو بات کرنے کی اجازت تھی  دونوں سہیلیوں نے اپنا پروٹوکول بنا رکھا تھا کہ ان کی موجودگی میں کسی کو بات کرنا تو دور کی بات بلند آواز میں ہنسنے کی بھی اجازت نہ تھی صرف اور صرف مسکرانے کی اجازت تھی بس  اس سے زیادہ کچھ نہیں
اس سرد شام میں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ سرد شام پاکستان کی تاریخ ہی بدل دے گی وہ لڑکی بہت تربیت یافتہ تھی اس کے کان میں ایک چھوٹا سا ننھا منا سا مائک فٹ تھا  وہ کہیں سے  ہدایت لیکر بات کررہی تھی  جس کا کسی کو بھی علم نہ تھااچانک اس  پیاری سی بچی نےنے ایک ایسا سوال پوچھا کہ محفل میں سکتہ طاری ہوگیا  " آنٹی آپ دونوں میں طاقتور کون ہے" تھوڑی دیر بعد مسز چوہدری نے کہا بیٹا ہم دونوں بہنیں ہیں اور سہیلیاں ہیں لیکن راجپوتی خون جوش مارچکا تھا سپہ سالار کی بیوی نے کہا انسان کو اس کے کام بڑا بناتے ہیں میرا شوہر  کمانڈو بھی ہے اور طاقتور بھی صرف اشارہ کرنے کی دیر ہوتی  ہے تو وہ چیز غائب ہوجاتی ہے مسز چوہدری نے کہا کہ لیکن میرا شوہر ایک اشارہ کرتا ہے تو  کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ  ہو اس کے سامنے حاظر ہوجاتا ہے  ننھی منی من موہنی پیاری سی گلابی چہرے والی بچی نے کہا تو کیا آنٹی کا  کمانڈوشوہر بھی حاظر ہوجائیگا مسز چوہدری شاید مزاق کے موڈ میں تھی کہا کیوں نہیں  میری  بیٹی بس اشارہ کرنے کی دیر ہے اگر میرا شوہر اشارہ کردے تو کوئی بھی حاضر ہوجائے گا
راجپوتی خون تڑپ اٹھا یہ مت بھولو کہ تمہارے شوہر کو اس بلند مقام پر میرے ہی شوہر نے پہنچایا ہے مسز چوہدری نے کہا کہ کیا میرے شوہر کی  مرضی  اور اجازت کے بغیر وہ  اتنی طاقت حاصل  کرسکتا تھا ۔ مجھ پر کوئی احسان جتانے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ میرے شوہر نے تو تمہارے شوہر کو وہ سب کچھ بھی دیا جو اس نے مانگا بھی نہ تھا اچانک مسز ڈوگر نے مداخلت کی کہ مسز چوہدری صاحبہ بس رہنے بھی دو بات نہ بڑھائیں  یہ سن کر مسز چوہدری بھڑک اٹھی "تم اپنی اوقات میں رہو خبردار جو مداخلت کی اور نکل جاؤ یہاں سے"
سپہ سالار کی بیوی نے کہا  نہیں نہیں جتانے دو احسان  اچھا ہوا آج اصلیت کھل کر سامنے آگئی مسز ڈوگر میری مہمان ہے یہ کہیں نہیں جارہی اب یہ میرے ساتھ ہی جائے گی
یہ سب باتیں سن کر معصوم بچی خوفزدہ ہوگئی کیونکہ اس سوال کے بعد مائک بند ہوچکا تھا  آنٹی آپ رہنے دیں  آپس میں لڑائی نہ کریں آپ دونوں ہی اچھی ہیں لیکن سپہ سالار کی بیوی نے کہا نہیں بیٹی اب اس سوال کا جواب کل تک مل ہی جائے گا کہ کون کتنا طاقتور ہے  اس احسان فراموش  مسز چوہدری کو تو میں ایسا سبق سکھاؤں گی کہ پوری زندگی یاد رکھے گی اگر کل ہی اس کے شوہر کو اختیارات اور طاقت سے محروم نہ کیا تو میرا نام بدل دینا  چلو مسز ڈوگر یہ  مسز چوہدری کون ہوتی ہے تمہیں ذلیل کرنے والی میں ہوں نا۔
مسز چوہدری نے کہا تم ذرا سی بات پر برسوں کی دوستی کو خاک میں ملا رہی ہو ۔سپہ سالار کی بیوی نے کہا یہ تمہاے لیئے معمولی بات ہوگی میں تمہیں بتاؤں گی کہ  ہم کیا ہیں  تم نے میری دوستی دیکھے ہے دشمنی نہیں
کمانڈو نہ جانے کس سوچ میں گم سم بیٹھا تھا کہ اس کی اہلیہ  نے  ایوان صدر جاکر خوب  نمک  مرچ لگا کر سارا واقعہ سنایا سارا واقعہ سن کر کمانڈو نے  زندگی میں پہلی بار اپنی ہتھیلی پر مکا مارا اور پھر اس مکے نے پاکستان کی تاریخ ہی بدل دی
نو۔ مارچ  2007کو کمانڈو نے اپنے آفس میں قاضی القضاء کو طلب کیا۔ قاضی القضاء نے بہت کہا کہ عورتوں کا  معمولی جھگڑا ہے میں نے مسز چوہدری کو بہت ڈانٹا ہے  معاملہ رفع دفع کریں بات کو بڑھانا ٹھیک  بلکہ ہم تو صلح کیلئے گھر 
آرہے تھے
 نہیں  کمانڈو نے  مختصر کہا "نہیں  "میں نے اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لے لیا ہے  اب پرانی دوستی کو ایک طرف رکھ دو تمہاری بیوی نے بہت زیادتی کی ہے  کس کی جرات ہے جو میری طاقت کو للکارے میں تمہیں غائب کررہا ہوں تمہیں دی ہوئی طاقت واپس لے رہا ہوں  اب تم مجھے حاضر کرکے دکھاؤ
سنا ہے کہ اس دن  انکار  کمانڈو نے کیا تھااور اس ایک "انکار" نے پاکستان کی تاریخ کو بدل دیا

4 comments:

جواد احمد خان said...

معنی خیز تحریر ہے مگر اصل پیغام سمجھ نہیں آیا

محمد سلیم said...

آپ جناب ہمارے لیئے ایک نئی دنیا کے دریچے وا کر رہے ہیں۔ شکریہ آپکا۔

منصور مکرم said...

یہی حقیقت ہے جو لکھی گئی ہے، یا اسکے ذریعے کسی دوسری بات کی طرف اشارہ کرنا ہے؟

Unknown said...

تحریک بحالی عدلیہ کے دنوں میں ہمارے ایک ساتھی مزاق میں یہ بات سناتے تھے آج موڈ میں آیا تو لکھ دیا سچ سمجھو تو سچ نہ سمجھو تو مچ ہے