Powered By Blogger

Friday 3 January 2014

اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے" کیدو" کا رول ادا کرکے کالی شیروانی والے فرشتوں کو امتحان میں ڈال دیا

آج بالآخر  پاکستانی میڈیا نے عدلیہ کی کرپشن کے حوالے سے چپ کا روزہ توڑ دیا او ر انکشاف کیا ہے کہ   اسلام آباد ہایئکورٹ نے کرپشن لوٹ مار فراڈ دھوکے بازی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں آج  آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پٹیشن نمبر 01/2014 داخل کی گئی ہے جس میں ان دھوکے بازیوں کی نشاندہی کی گئی ہے
ہائی استغفار ۔۔۔۔ہائی استغفار
لیکن مجھے زیادہ افسوس اس کا ہے کہ اسلام آباد ہایئکورٹ نے کرپشن کے حوالے سے ایک اور ہایئکورٹ کا ریکارڈ توڑ دیا ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثر ججز خود بھی اسلام آباد ہایئکورٹ کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے رہے ہیں    اپنے بھانجے بھتیجے داماد وغیرہ وغیرہ  بھرتی کروائے گئے اور خوب دبا دبا کے دودھ پیا ہے وہ بھی تازہ ۔۔۔کیا ان کیلئے ممکن ہوگا کہ وہ انصاف کرسکیں  جسٹس وجیہہ الدین صاحب تو فرماگئے آج ایک پروگرام میں کہ پورے ملک کے تمام اداروں نے  قواعد سے ہٹ کر تقرریاں کی ہیں
جس طرح منہ بنا کر سپریم کورٹ میں کالی شیروانیاں لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں  کبھی کبھی مجھے خود بھی ان کی پارسائی پر یقین ہونے لگتا ہے  کہیں انصاف کرہی نہ دیں
اللہ خیر کرے
اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے عدلیہ کیلیئے کس طرح کیدو کا کردار ادا کیا ہے اس کی مکمل تفصیلات جیو ٹی وی کے پروگرام آج کامران خان کے ساتھ میں یوں پیش کی ہے
جیو کے پروگرام ’’آج کامران خان کے ساتھ‘‘ میں تجزیہ کرتے ہوئے میزبان کامران خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تقرریوں میں میرٹ کی خلاف ورزی اور خریداری میں سنگین بے ضابطگیوں اور اقربا پروریوں کے سنگین ترین الزامات لگائے گئے ہیں۔پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ پر ایک سرکاری ادارے کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات بہت پریشان کن ہیں۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گیا ہے اور اب اعلیٰ عدلیہ ان الزامات کے حوالے سے اپنا دفاع سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرے گی جو اگر صحیح ثابت ہوتے ہیں تواس کے بہت دور رس اثرات ہوںگے۔ ملک کے کسی بھی سرکاری ادارے میں اگر میرٹ کی خلاف ورزی ہوتی ہے، خریداری میں بے ضابطگیاں ہوتی ہیں، نظام شفاف نہیں ہوتا تو اس کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ سے احکامات اورسخت ریمارکس سامنے آتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ الزامات کا رخ اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہوجائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بہت نازک صورتحال سامنے آرہی ہے، اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پچھلے تین سال میں کی جانے والی تقرریاں میرٹ کی سنگین خلاف ورزی ہیں، جو خریداریاں کی گئی ہیں وہ سنگین بے ضابطگیاں ہیں اور اقربا پروری کھلے عام اسلام آباد ہائیکورٹ میں نظر آرہی ہے۔ کامران خان نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ پر ایک سرکاری ادارے کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات بہت پریشان کن ہیں اور اس کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ گزشتہ کئی برسوں سے فعال نظر آتی ہے اور اس کے کئی احکامات ایسے ہیں جن پر حکام کے خلاف انہی الزامات کے تحت کارروائی کی گئی ہے جو اب خود اس پر لگائے جارہے ہیں۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گیا ہے اور اب اعلیٰ عدلیہ ان الزامات کے حوالے سے اپنا دفاع سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرے گی جو اگر صحیح ثابت ہوتے ہیں تواس کے بہت دور رس اثرات ہوںگے۔ اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں عائد کئے گئے الزامات کے بارے میں کامران خان نے بتایا کہ اس رپوررٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی تنظیم نو کے بعد کسی ایک بھی افسر کی تقرری میرٹ پر نہیں کی گئی، کئی افسران کی تقرریوں میں قواعد وضوابط میں نرمی برتی گئی، کئی افسران کے ٹرانسفر میں قواعد کو سامنے نہیں رکھا گیا اور کئی کو بغیر کوئی وجہ ظاہر کئے ان کے اصل سرکاری گریڈ سے کئی درجے اعلیٰ گریڈ پر تعینات کردیا گیا، اسامیوں کی ذرائع ابلاغ میں تشہیر نہیں کی گئی تاکہ میرٹ پر ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد افسران کی تعیناتی ہوسکے، یہ تمام تقرریاں غیرقانونی طریقے سے کی گئیں۔ ہائیکورٹ کے جج صاحبان کے لئے تین گھر کرائے پر حاصل کئے گئے تھے، ججو ں کو سرکاری رہائش گاہ مہیا کرنے کے باوجود ہر متعلقہ جج کو 65 ہزار روپے ماہانہ الائونس بھی جاری ہوتا رہا۔ جولائی 2010ء سے جون 2013ء تک ایک کروڑ 74 لاکھ روپے سے زائد بچے ہوئے فنڈز حکومت کو واپس نہیں کئے گئے۔ جون 2012ء میں بغیر ٹینڈر جاری کیے ڈیڑھ لاکھ کے بے جا اخراجات کئے گئے، قواعد کے تحت ایک لاکھ سے زائد کی خریداری کو مشتہر کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس شرط سے بچنے کیلئے اخراجات کی دو مختلف درجہ بندیاں کردی گئیں۔ 28مئی 2011ء کو 24 کے وی اے کے جنریٹر کی خریداری کے لئے اشتہار دیا گیا لیکن قواعد کے خلاف 27 کے وی اے کا جنریٹر خریدا گیا، 11 لاکھ 67 ہزار کی سب سے کم بولی کو نظرانداز کر کے جنریٹر 14 لاکھ سے زائد قیمت پر خریدا گیا۔ پیپرا رولزکے برخلاف ٹینڈرجاری کئے بغیر 2011ء سے 2013ء کے درمیان 6 لاکھ 30 ہزار سے زائد مالیت مصنوعات کی بے جا خریداری کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت قانون کے 15گریڈ کے اسٹینوگرافر ایس ایم طارق چنا کو 28 مارچ 2008ء کو ہائیکورٹ میں پرسنل اسسٹنٹ کی پوسٹ پر میرٹ کے برخلاف ٹرانسفر کیا گیا، یہ صاحب گریڈ 19تک ترقی پاگئے جبکہ ہائیکورٹ کے کئی افسران کو سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہ ہونے کے باوجود گاڑیاں دی گئیں۔ کامران خان نے تجزیے میں مزید کہا کہ اسلام آبادہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سیکیورٹی کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر افتخار محمد چوہدری کو بلٹ پروف گاڑی اور مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے ، اگر ایسا نہیں کیاگیا تو حکم جاری کیا جائے گا کہ تمام وی آئی پیزاپنی بلٹ پروف گاڑیاں جمع کرادیں۔ اسلام آبادہائیکورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سامنے ہی ایک دوسری درخواست آئی جس میں کہا گیا کہ اسی قسم کی سیکیورٹی تمام سابق چیف جسٹس صاحبان کو دی جائے اور وہی حکم جاری کیا جائے جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیلئے جاری کیا گیا، لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس درخواست کو مستردکرتے ہوئے درخواست دینے والے کے خلاف ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنادی۔


No comments: