Powered By Blogger

Thursday 23 January 2014

اسلام ، طالبان اور ایک مسلمان کے جان ومال کی حرمت کے بارے میں واضح احکام


اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔
ہم جس اسلام نامی مذہب کو بچپن سے جانتے ہیں اس میں انسانوں سے محبت کا درس دیا جاتا ہے ۔میں جس اسلام نامی مذہب کا پیروکار ہوں اس کے متعلق میں یہ جانتا ہوں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسانی جان کی حرمت خانہ کعبہ کے تقدس سے بھی زیادہ ہے  ایک مرتبہ دوران طواف خانہ کعبہ کو مخاطب کرکے سرکار مدینہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کتنا پاکیزہ ہے تیری فضا کتنی خوش گوار ہے۔ کتنا عظیم ہے تو، تیرا مقام کتنا محترم ہے مگر اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ایک مسلمان کے جان ومال اور خون کا احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے (ابن ماجہ)
میں بچپن سے ہی ایک واقعہ سنتا چلا آیا تھا کہ ایک شیخ الحدیث نے قیام پاکستان سے پہلے جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان  ایک قبرستان کی زمین  کی ملکیت کا تنازعہ ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ زمین ہندوؤں کی ملکیت ہے اس طرح زمین تو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن    
 انہوں نے اسلامی روایات  کا تحفظ کیا موجودہ دور میں اگر شیخ الحدیث صاحب ایسا فیصلہ کرتے تو ان کا حشر کیا ہوتا
دنیا ادھر سے ادھر ہوسکتی ہے لیکن اسلام کے واضح احکامات بدل نہیں سکتے اس حوالے سے جتنے بھی دلائل پیش کردیئے جائیں وہ قابل قبول نہیں ہوسکتے۔
کم ازکم جس اسلام سے میں واقف ہوں جو میرا مذہب ہے وہ  کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو اسلامی احکامات کے خلاف ہو
طالبان کی اکثریت کا تعلق پاکستان ہی سے ہے اور وہ پاکستانی ہیں طالبان کو خودہی ان خود کش حملوں کی  مخالفت کرنی چاہیئے تھی کیونکہ خود کش حملوں کا اکثر نشانہ معصوم اور بے گناہ شہری بنتے ہیں   اسی طرح  وہ علماء اکرام جن کے وہ پیروکار ہیں سختی سے ان تمام اعمال کی مذمت کرتے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا
ڈرون حملے امریکہ کرتا ہے اس میں جو جانی نقصان ہوتا ہے جس طرح عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے یہ ایک گھناؤنا عمل ہے اس کے ردعمل کے طور پر کسی بھی طرح یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اپنے ہی کسی مسلمان بھائی،بہن یا بچے کو نشانہ بنایا جائے  کم ازکم اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا
آج تک جو خود کش بمبار پکڑے گئے ہیں ان کی اکثریت کم عمر نوجوانوں کی تھی  جن کابرین واش کرکے اس غیر انسانی عمل پر اکسایا گیا۔اور وہ تو سادہ بچے تھے
کیا علماء اکرام کا یہ فرض نہیں کہ اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم سختی سے فرمائیں کہ کسی بھی صورت میں اسلامی تعلیمات سے دستبردار نہ ہوں طالبان سے زیادہ وہ علماء اکرام قصور وار ہیں جنہوں نے اپنے پیروکار طالبان کو یہ تاکید نہ کی کہ وہ کسی بے قصور اور بے گناہ کی جان  کسی بھی صورت میں نہ لیں
اگر بدلہ ہی لینا ہے تو قصور وار سے لیں ظالم سے لیں امریکہ سے لیں  پولیو کے قطرے پلانے والی اٹھارہ سال کی معصوم لڑکیوں کو قتل کرنا بہادری نہیں ڈاکٹر آفریدی جیسے غدار کی کی غداری کی سزا بے گناہ کو دینا یہ کہاں کا اسلام ہے ہمیں اس بات کو بحیثیت مسلمان سمجھنا چاہیئے

جس بات کی اجازت قرآن اور حدیث نہیں دیتے وہ کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے ہم بار بار کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران طواف خانہ کعبہ کو مخاطب کرکے سرکار مدینہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کتنا پاکیزہ ہے تیری فضا کتنی خوش گوار ہے۔ کتنا عظیم ہے تو، تیرا مقام کتنا محترم ہے مگر اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ایک مسلمان کے 
جان ومال اور خون کا احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے (ابن ماجہ)
اگر ہم ان اسلامی احکامات کی بجائے من مانی کرنا چاہتے ہیں تو پھر جس کا جو جی چاہے کرے

No comments: