Powered By Blogger

Friday 3 January 2014

دادا استاد تحریر صفی الدین اعوان

دادا استاد  
دادا استاد کی اصل وجہ شہرت ان کی وہ بے مثال اداکاری ہے جس کے جوہر وہ کورٹ روم میں اکثر دکھاتے ہیں وہ اداکاری حقیقت سے اتنی قریب تر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے استاد ان کو اپنا استاد مانتے ہیں اور یہی وجہ شہرت ہے کہ ان کو دادا استاد کا لقب ملا دادا  نے یوں تو زندگی میں بے شمار کام کیئے لیکن تاریخ لینے میں جو ان کو مقام حاصل ہے وہ کسی اور استاد کو حاصل ہوہی نہیں سکتا
ایک بار نئی سینئر سول جج صاحبہ آئیں تو ان کو دادا کی فن کاریوں کا پتہ چلا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ایسی کی تیسی ہے دادا استاد کی دیکھتی ہوں کراچی کے اس دادا استاد کو کیسے تاریخ لیتا ہے میری عدالت سے پیش کار نے بتایا کہ  میڈم استاد واقعی استاد ہے  اور استادوں کا استاد ہےکل  ہی ایک کیس لگا ہوا ہے استاد کا اس میں وہ مسلسل تاریخ لے رہا ہے کیس نہیں چلاتا   خاتون جج نے کہا کہ کل استاد کی ساری استادیاں نہ نکالیں تو پھر کہنا
مختصر یہ کہ استاد قابو نہ آیا مصروف تھے ہایئکورٹ میں  جونیئر تاریخ لیکر کھسک گیا اسی طرح تاریخیں چلتی رہیں
استاد کی بدقسمتی کہ ایک دن وہ  قسمت  سےتشریف لے ہی آئے  پیش کار نے  اشاروں میں بتایا کہ یہی دادا استاد ہے سینئر سول جج صاحبہ جو مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں استاد کو نظروں ہی نظروں میں تولا
دادا استاد ساری صورتحال سے بے خبر حاضری لگوا کر کھسکنے کی ہی لگے تھے کہ 
سینئر سول جج صاحبہ الرٹ ہوگئی مدعی مقدمہ نے بتایا کہ یہ مقدمہ کئی سال سے لٹکا ہوا ہے آج وکیل صاحب تشریف لے آئے ہیں  ان کے فائینل دلائل سن کر  اس کا فیصلہ کرہی دیں
دادا نے بہت بہانے بنائے لیکن جج صاحبہ  مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں  کہ قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں دادا کے سارے حربے سارے بہانے ساری چالیں ناکام ہوگئیں  کورٹ روم میں اور استاد بھی موجود تھےایک لمحے کیلئے دیگر استادوں کو محسوس ہوا کہ آج تو استاد پھنس  ہی گیا
آج تو کوئی بہانہ نہیں چلے گا ہرصورت میں مقدمہ چلانا ہی چلانا ہے آپ کو
ابھی بحث چل ہی رہی تھی کہ آج وہ کس وجہ سے مقدمہ نہیں چلارہے تو  اچانک مدعی بول پڑا کہ وکیل  نے اپنی پارٹی سے پیسے لئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کیس نہیں چلارہا
یہ سن کر دادا استاد نے پیچھے مڑ کر مدعی مقدمہ کی طرف دیکھا  چشمہ اتارا ۔سامنے پڑے ٹیبل پر رکھا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
کورٹ روم میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ دادا کا بہر حال ایک مقام تو ہے
دادا استاد پانچ منٹ اسی طرح صدمے کی حالت میں سر پکڑ کر بیٹھے رہے کبھی چشمہ پہن لیتے کبھی اتار دیتے اور کبھی چشمہ اتار کر آنکھیں ملنا شروع کردیتے   یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان کا جسم آہستہ آہستہ جھٹکے لے رہا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ ان کا بلڈ پریشر قابو سے باہر ہوچکا ہے
اچانک کھڑے ہوئے اور کہا جج صاحبہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج میری وکالت کے پچیس سالوں پر کسی نے پانی پھیر دیا ہے اس شخص نے یہ چند الفاظ بول کر میری زندگی کے وہ پچیس سال مجھ سے چھین لیئے ہیں  جو میں نے بہت مشکل سے بنائے تھے
پچیس سالوں میں آج تک کسی نے میرے متعلق ایسے الفاظ نہیں کہے اس شخص نے یہ الفاظ بول کر مجھے صحرا میں کھڑا کردیا ہے
کورٹ روم بھرا ہواتھا   اور ایک دم سناٹا چھایا ہوا تھا
کورٹ میں ایک ہی آواز بار بار گونج رہی تھی میری زندگی کے پچیس سال۔پچیس سال میری زندگی کے آج خاک میں مل گئے آج میں خالی ہاتھ کھڑا ہوں میرے اثاثہ لٹ چکا ہے انسان کے پاس ہوتا ہی کیا ہے میرا اثاثہ ہی کیا تھا  میرا کل اثاثہ ہی وہ پچیس سال تھے جو آج عدالت کے سامنے اس شخص نے لوٹ لیا ہے
دادا استاد کبھی بیٹھ جاتا کبھی کھڑا ہوجاتا کبھی کورٹ روم میں ہی چلنا شروع کردیتا  میری زندگی کے پچیس سال کہاں چلے گئے میں آج  ایک شخص نے چند الفاظ بول کر چھین لیئے ہیں میرے پاس تھا ہی کیا میرا کل اثاثہ پچیس سال ہی تو تھے
دادا کی آواز کھڑک سنگھ کی طرح گونج رہی تھی 
عدالت اندازا نہیں لگا سکتی کہ میں کس تکلیف سے گزر رہا ہوں کس قدر ازیت ناک ہوتا ہے اس شخص کیلئے جب اس سے اس کی زندگی کے پچیس قیمتی سال چھین لیئے جایئں
یہ کہہ کر دادا استاد چشمہ سامنے رکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا
جج صاحبہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ایسا کریں آج تاریخ لے لیں مقدمہ پھر چلالیں گے
دادا استاد نے کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جس شخص سے اس کی پیشہ ورانہ زندگی کے پچیس سال چھین لیئے جایئں اس کی اذیت کو کوئی محسوس نہیں کرسکتا جو مرضی آئے تاریخ دے دیں مجھے اب اپنی زندگی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی میرا دماغ کام ہی نہیں کررہا
خاتون جج صاحبہ نے  ایک ماہ کی تاریخ دے دی
دادا استاد خاموشی سے اٹھے پیچھے مڑکر مدعی مقدمہ کو ایک طنزیہ قسم کی بھرپور آنکھ ماری  خاتون جج صاحبہ کی طرف مسکرا کر دیکھااور  کورٹ روم سے باہر نکل گئے
 سینئر سول جج صاحبہ حیرت  سے دیکھتی رہ گئیں اور سب  ڈرامہ سمجھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گئیں

تحریر :: صفی الدین اعوان

No comments: