Powered By Blogger

Sunday 12 January 2014

کبھی وہ پھول لیکر استقبال کرتے تھے

کبھی وہ پھول لیکر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔کبھی وہ پتھر لیکر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔اور کبھی وہ بندوق لیکر کھڑے ہمارا انتظار کررہے ہوتے ہیں
ہم وہ طبقہ ہیں جو اپنے آقا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا میلاد اس نظرئیے کے ساتھ ہرروز مناتے ہیں کہ وہ عظیم ساعت ہر روز آتی ہے جس  ساعت میرے  آپ کے اور ہم سب کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ہر ہفتے کو پیر کے دن خوشی کا اظہار کے یہ وہ دن ہے جب پیارے مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   اس دنیا میں تشریف لائے ہر مہینے کی بارہ تاریخ ہمارے لیئے  خوشی کا باعث کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   تشریف لائے عاشقان رسول باالخصوص  ربیع الاول کا سارا سال انتظار کرتے ہیں کہ  وہ خاص مہینہ   اور وہ خاص  دن  اور خاص مبارک ساعت جس میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   اس دنیا میں تشریف لائے عید میلاد کا تقابلہ کرسمس  سےکرنا  ظلم ہے کیونکہ عیسائی تو سال میں صرف ایک دن عید مناتے ہیں جبکہ عید میلاد تو سارا سال منائی جاتی ہے   میرے خیال میں دنیا کا سب سے بڑا جشن 
کراچی میں منایا جاتا ہے

کراچی کی روایت یہ ہے کہ کراچی کو دولہن کی طرح سجایا جاتا ہے کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں میلاد کمیٹیاں ہیں جو کراچی کو سجاتی ہیں لیکن جو سجاوٹ کراچی کے علاقے کھارادر میں ہوتی ہے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا
بارہ ربیع الاول کو کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں  مرکزی جلوس میمن مسجد کھارادر سے نشتر پارک  جاتا ہے
گزشتہ  چند سالوں سے ہر سال کراچی میں ایک نیا ماحول ہوتا ہے  ۔کراچی کے شہری جلوس میلاد کا استقبال کرتے ہیں کراچی کے وہ شہری جو عید میلاد نہیں مناتے   وہ بھی ماضی میں اتحاد بین المسلمین کے نظریئے کہ تحت جلوسوں کا پھول لیکر استقبال کرتے تھے جب فرقہ پرستی کی لہر آئی  پاکستان  کی سڑکوں پر آل سعود اور ایران کی
جنگ لڑی گئی تو اس کی لپیٹ میں "میلاد کےجلوس "بھی آگئے   اور علماء کے لیئے بھی ایجنسیوں کے عمل دخل میں اضافے کے بعد اتحاد بین المسلمین کے مظاہرے کرنا ممکن نہ رہا   کیونکہ غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے افراد  ان علماء پر جو اتحاد بین  المسلمین  کے  لیئے کوشش کرتے تھے پرطعنہ زنی کرتے تھے کہ یہ استقبال کرنا منافقت  ہے جو لوگ کل تک پھول لیکر کھڑے ہوتے تھے ایجنسیوں نے ان  کی جگہ نئے غیرمقامی لوگ کھڑے کرکے ان کے ہاتھ میں پتھر تھمادیئے  لیکن ان کی تعداد قلیل  تھی جب پتھر وں سے دل نہ بھرا تو ہاتھ میں بندوقیں تھمادی گئیں جب بندوقیں بھی ناکام ہوگئیں  تو نشتر پارک میں  ایک سازش کے تحت بم دھماکے کے ذریعے نفرت پھیلانے کی سازش کی گئی لیکن یہ سازش  ناکام ہوگئی۔ہر مکاتب فکر کے علماء نے اس واقعہ کی مذمت کی لیکن اس واقعے کے بعد اگرچہ اتحاد بین المسلمین کے وہ مظاہرے تو نہ ہوئے کہ ماضی کی طرح علماء  نے جلوسوں کا استقبال تو نہ کیا لیکن اس معاملے پر خاموشی اختیار  کرلی اور اکثر علماء نے اس کے بعد محتاط رویہ اختیار کیا ہے جو کہ خوش آئیند ہے  
میں دوستوں سے اپیل کروں گا کہ میلاد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر  جوکہ ایک مصنوعی اور غیر حقیقی دنیا ہے پربحث نہ  کریں  اور نہ ہی اعتراضات کے جوابات دینے کی تبلیغ کریں کیونکہ یہ چھوٹی بحث نفرت کے ماحول کو جنم دیتی ہے ویسے بھی سوشل میڈیا پر بحث کرنا  بلاوجہ کی درد سری ہے ہر سطح پر   اتحاد بین المسلمین کے مظاہرے کی سخت ضرورت ہے وہ علماء  دانشور  اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افرادجو اختلاف رکھتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ   وہ اب کھل کر اپنا کردار اداکریں ہر مسلک میں آج بھی  معتدل  ذہن رکھنے والے افراد ہی کی اکثریت ہے چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں آل سعود اور ایرانی حکومت کے ناپاک ایجنڈے پر پاکستان کی سڑکوں پر کام کرنے والے اور اپنے ہی مسلمان بھایئوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے  افراد کی تعداد اب بھی قلیل ہے  اور فرقہ پرست پاکستانی قوم کو شکست نہیں دے سکتے

کراچی میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے  لیکن علماء کو چاہیئے کہ وہ ماضی کی روایات کو زندہ کریں  تمام مسالک کے معتدل ذہن رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرکے  اختلاف کے باوجود  طعنہ زنی کے باوجود میلاد کے جلوسوں کا استقبال کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرکے آل سعود اور ایران سمیت  ہر قسم کی غیر ملکی   ناپاک سازشوں کو ناکام بنادیں    

No comments: