Powered By Blogger

Monday 13 January 2014

طالبان کراچی کے شہریوں کیلئے ایک نیا چیلنج

فرقہ پرستی تو ہر دور میں رہتی ہے۔
پاکستان میں فرقہ پرستی کے بہت سے موسم ہیں
پہلا موسم اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک مسجد کو دوسری مسجد سے ٹکرا دیا جاتا ہے۔ایک مدرسہ دوسرے مدرسے کے مقابل آجاتا ہے شخصیات سے شخصیات کو لڑادیا جاتا ہے۔اچانک ہی کسی فرقے کے پاس اتنا پیسہ آجاتا ہے کہ وہ دھڑا دھڑ مختلف قسم کی کانفرنسیں کروانا شروع کردیتا ہے۔جس کے بعد دوسرا فرقہ بھی میدان میں آجاتا ہے کانفرنس کا جواب کانفرنس سے دیا جاتا ہے۔ایک زمانے میں کراچی کے پھیلاؤ میں فرقہ پرستی اور فرقہ پرست تنظیموں کے مفادات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔کچی آبادی   سے پہلے ایک وسیع  قلعہ نمااراضی مسجد اور مدرسے  اور اس کے علاوہ ایک چھوٹا سے دوہزار گز کا  چھوٹا سا قلعہ نمامولانا صاحب کا حجرہ آباد ہوتا تھا جس کے بعد وسیع پیمانے پر اللہ کی زمین  کچی آبادی کے نام پر  انتہائی  سستے دام آباد کردی جاتی تھی غریبوں کو سستے داموں مفت زمین اور ایجنسیوں کو سستے داموں  سستا "ایندھن" بھی اسی زرخیز زمین سے مل جاتا تھا وہ سستا ایندھن فرقہ پرستی کی آگ روشن کرنے کے کام آتا تھا کبھی کبھی کراچی میں ایجنسیاں ایسا ماحول بنادیتی ہیں کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے سے بات کرنا پسند نہیں کرتا کبھی کبھی یہ بالکل ایک ساتھ مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو حالات اسقدر بے قابو ہوجاتے ہیں کہ دل ہی ڈر جاتا ہے کہ نہ جانے کیا ہوجائے کراچی میں فرقہ پرستی کے سارے موسم پرائے ہیں ورنہ یہ شہر تو اعتدال پسند ہے  اور فرقہ پرستی کے دوران قتل وغارت گری کراچی کا مزاج نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر  خود رو پودوں کی طرح پھیل گیا۔کراچی کی کچی آبادیوں میں ایسی ایسی عظیم الشان مساجد  اور ایسے ایسے عظیم الشان مدارس ہیں جن کا قلعہ نما رقبہ اور فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کراچی  کے ان حصوں کو کافی عرصے تک قبول ہی نہیں کیا گیا اور یہی تاثر دیا گیا کہ ان  غیرقانونی آبادیوں کو مسمار کردیا جائے گا 
ان مضافاتی علاقوں کے بارے میں دو ا شعار کسی زمانے میں دیواروں پر لکھے نظر آتے تھے
دن شہر رات مضافات ميں رہنا
بہتر يہی ہے کہ گردش حالات ميں رہنا
يہ شہر کراچی ہے سمندر کے کنارے آباد
اس شہر ميں رہنا ہے تو اپنی اوقات ميں رہنا

 ان دو اشعار میں وہ سب کچھ چھپا ہے جو دلوں میں بغض کی طرح پلتا رہا مضافاتی علاقوں سے نظریں چرائی گئیں لیکن وہ علاقے ایک حقیقت تھے سرکاری طور پر ان کو ایک طویل عرصے تک قبول نہیں کیا گیا
اس کی ایک اہم وجہ  منتخب بلدیاتی اداروں کا نہ ہونا بھی تھا  ایک طویل عرصے کے بعد جب مشرف نے بلدیاتی نظام نافذ کیا تو انکشاف ہوا کہ  موجودہ آدھے سے زیادہ شہر تو کچی آبادیوں پر مشتمل ہے  پہلے سٹی ناظم نے بھی کراچی کی ان کچی آبادیوں کو کراچی کے ماتھے کا جھومر قرار دیا ۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ سڑک تو بننے کے بعد ہی ٹوٹتی ہے زمانہ قدیم کے کچے راستے،سیوریج سسٹم سے محروم ، پینے کے پانی کا کوئی نظام نہیں نہ کوئی اسپتال نہ کوئی اسکول نہ کوئی کالج  ایسی ہوتی ہیں کچی آبادیاں
غربت نے عوام کو کراچی کے پہاڑوں پر چڑھنے پر مجبور کردیا جہاں پلاٹ مفت تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ بھی آباد ہوگئے شروع شروع میں یہ پہاڑیاں اس وقت خوبصورت نظارہ پیش کرتی تھیں جب رات کو پہاڑیوں پر آباد گھروں میں بلب جلتے تھے تو پورا پہاڑ روشن ہوجاتا تھا۔ یہ پہاڑی راستے دشوار گزار بھی ہیں اور مشکل بھی نہ جانے کیسے یہاں بجلی پہنچی نہ جانے کیسے پینے کا پانی پہنچایا جاتا ہے اور زندگی کی دیگر سہولیات یہاں پہنچتی ہیں ۔یہی علاقے طالبان کی آخری پناہ گا ہیں ٹہرے لیکن  اس وقت ان کو بحر الکاہل قرار دیا گیا کہ  جہاں سمندر کی تہہ تو پرسکون ہوتی ہے لیکن اندر بڑی بڑی شارکس اور وہیل مچھلیاں گھوم رہی ہوتی ہیں یہی تاثر دیا گیا کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے  لیکن افسوس ایسا نہ ہوا طالبان اچانک کھل کر ظاہر ہوگئے
کراچی کی کئی کچی آبادیوں میں محسود اور دیگر قبائل کالونیوں کی شکل میں آباد ہیں اور یہی علاقے اس وقت طالبان کے اہم مراکز ہیں اور ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے  ان کے پاس ہرقسم کا اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہے اور سڑکیں وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے  پولیس یہاں نہیں پہنچ سکتی   منگھو پیر  اور گلشن غازی کے جن علاقوں اور طالبان کو ہلاک کرنے کے دعوے کیئے جاتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ان علاقوں کو نو گو ایریا کہنا مناسب نہیں کیونکہ یہ صرف پولیس کیلئے نو گو ایریاز ہیں   ماضی میں جن طاقتوں کو فرقہ پرستی کیلئے استعمال کیا گیا اور جس سستے ایندھن کو استعمال کیا گیا وہ شاید اب اپنے بانیان کے قابو میں بھی نہیں ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ کراچی کے حالات کیا سے کیا ہوجائیں گے کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں نے مختلف طاقتوں اور مافیاز سے بھی تعلقات قائم کررکھے ہیں

فرقہ پرستی کا ان علاقوں سے گہرا تعلق  ہے  کیونکہ  ایجنسیوں کو موسم کی تبدیلی کیلئے ایندھن اور خام مال یہیں سے ملتا ہے کل عید میلادالنبی  ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ یہ دن خیریت سے گزرجائے  کیونکہ دہشت گردی کا شکار کراچی  شاید کسی نئے فرقہ وارانہ موسم  کا متحمل نہیں ہوسکتا

No comments: