Powered By Blogger

Tuesday 31 December 2013

پپا اوتھ نہیں لینا

میں سخت پریشر میں تھا عدلیہ بحالی کی تحریک  ٹھنڈی پڑچکی تھی لیکن میڈیا کسی نہ کسی طرح اسے زندہ رکھے ہوئے تھا۔ پیپلز پارٹی کی  حکومت عدلیہ کی بحالی سے دلچسپی نہیں رکھتی تھی معاملات تیزی سے بدل رہے تھے اور ہرروز ایک نیا صدمہ سہنا پڑرہا تھا مضبوط ستون گررہے تھے اور عدلیہ بحالی کے رہنما بھی مایوسی کا اظہار کررہے تھے صرف عام وکیل اور نوجوان وکلاء ہی تھے جو تحریک سے مخلص تھے جس کی وجہ سے  وکلاء  تحریک چل رہی تھی میں پریشان تھا میں سوچ رہاتھا کہ حلف لوں یا نہ لوں دوستوں نے مشورہ دے دیا تھا کہ دوبارہ حلف لے لو اور جسٹس بن جاؤ ایمرجنسی بھی ختم ہوچکی ہے جمہوری حکومت ہے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا دوبارہ حلف لینا اور تھوکا ہوا چاٹنا ایک برابر تھا میں ساری رات پریشان رہا جاگتا رہا سوچتا رہا کہ کیا کروں اسی طرح صبح ہوگئی صبح کا اجالا پھیل گیا  بچے اسکول کے لیئے تیار ہوگئے میرا بیٹا میرے پاس آیا وہ اسکول جارہا تھا ۔وہ میرے پاس آیا اور کہا "پپا آپ پریشان ہیں پپا آپ اوتھ نہیں لینا" بس اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر دوبارہ اوتھ نہیں لوں گا یہ کہانی سن کر صوبائی سلیکشن بورڈ کے باقی چار ممبران کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہیں فخر کا احساس ہوا کہ وہ اس قومی ہیرو کے ساتھ سلیکشن بورڈ میں شامل ہیں جس کا نام عدلیہ کی تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا
اسی دوران ٹیلیفون کی کال آتی ہے  سلام کے بعدشاید پوچھا گیا کیا انٹرویو مکمل ہوگئے چیئرمین نے سعادت مندی سے کہا جی سر ہوگئے پھر کیا کرنا ہے   ایک ہزار میں سے تحریری امتحان کے بعد صرف سات امیدوار پاس ہوئے تھے جن کے انٹرویو کے بعدسات میں سے چار امیدواروں کو منتخب کرلیا ہے اور چاروں ہی اپنے شعبے میں ماہر ہیں ۔ تین امیدوار منتخب نہیں ہوسکے کیوں کہ دو امیدوار تو 1994 کے رولز کے مطابق امتحان میں شرکت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے بحیثیت جج ابھی ان کی سروس کو چھ سال مکمل نہیں ہوئے اس لیئے
لیکن ان تینوں کی تقرری تو لازمی کرنی ہے رولز کو گولی مارو وہ تو اپنے گھر کی کھیتی ہیں جانتے نہیں کہ عدلیہ آزاد ہے اور آزاد عدلیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ججز کی تقرری خود کرے
سر وہ تو ٹھیک ہے لیکن جو امیدوار رولز کے مطابق سیشن جج بننے کے اہل ہی نہیں ان کو کیسے  سیشن جج بنادیں اور ہم چند مجسٹریٹ صاحبان کو یہ بات  گزشتہ انٹرویوز میں تحریری طور پر بھی لکھ کردے چکے ہیں کہ  کیوں کہ ان کی سروس کو چھ سال مکمل نہیں ہوئے اس لیئے ان کو جج نہیں بنایا جاسکتا  اور اسی لیئے ان کا انٹرویو تک نہیں لیا تھا اگر ہم نااہل کو لیں گے تو یہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہوجائے گا جو کہ ایک جرم ہے اکیسویں صدی چل رہی ہے مسئلہ ہوجائے گا
صوبائی سلیکشن بورڈ کے ممبران دلچسپی سے قومی ہیرو کی گفتگو سن رہے تھے
سر مسئلہ ہوجائے گا بہت بڑا احتجاج ہوگا بارکونسلز ہیں مسائل  پیدا ہونگے
کال کرنے والے نے کہا انسان کو ایماندار ہونا چاہیئے لیکن ضرورت سے زیادہ ایمانداری مسائل پیدا کرتی ہے
چیئرمین نے کہا سر میں سمجھتا ہوں سب باتیں لیکن  لوگ ہم سے امید رکھتے ہیں ہم ان کی امیدوں کا کیا کریں اور لوگ مجھے عزت اسی لیئے تو دیتے ہیں کیونکہ میرا دامن صاف ہے  میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا میں اپنے بیٹے کو کیا منہ دکھاؤں گا
کال کرنے والے نے کہا بیٹا سمجھا کرو اب ایسا کرو کہ یہ تینوں اہل افراد جن کو نااہل قرار دیا ہے تینوں اپنے خاص لوگ ہیں اب ان کو ناراض بھی نہیں کرسکتے اس لیئے ایسا کرو کہ وہ چاروں جن کو منتخب کیا ہے جو عام گھروں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس کوئی سفارش نہیں ہے اتنی بڑی سیٹ پر ان کو نہیں بٹھا سکتے اس لسٹ کو پھاڑ دو اور تینوں افراد کو جج لگادو باقی یہ قوم احسان فراموش ہے اس قوم نے لیاقت علی خان کو  گولی ماری ہے بھٹو کو پھانسی لٹکا یا اس کی بیٹی کو گولی ماری اس قوم نے تمہاری ایمانداری کا کیا صلہ دینا ہے جہاں تک بیٹے کی بات ہے وہ ابھی بچہ ہے آہستہ آہستہ سمجھدار ہوجائے گا
جلدی جلدی لسٹ بناؤ   اور مجھے فیکس کرو میں انتظار کررہا ہوں
لیکن اگر بار نے احتجاج کیا تو بتا دینا میڈیا کو ہم نے میرٹ کی پاسداری کی ہے اور بار کے لوگوں کی پرچی نہیں مانی تو ہڑتالیں کرکے بلیک میل کررہے ہیں میڈیا تو ویسے بھی ہمارے ساتھ ہے  ڈرو مت کچھ نہیں ہوگا اب ہرجگہ میرٹ پر لوگ بھرتی ہونگے تو ہمارے بھانجے بھتیجے تو پھر گھر بیٹھ جایئں  
چیئرمین نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور فون بند کرکے  بورڈ کے ممبران کو  ایک قول سنا کرکہا کہ اچھا دوست وہ جو اپنے دوست کی  انکھ کے ابرو کے اشارے کو سمجھے یہ سن کر  باقی ممبران  اشارہ سمجھ گئے  میرٹ والی لسٹ کو پھاڑا اور پاؤں کے نیچے روند دیا اس کے بعد صاحب والی لسٹ کو اوکے کردیا گیا
چیئرمین یعنی پاکستان کے قومی ہیرو نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا
ہاں تو میں  اپنے بیٹے کی بات مان لی  اور میں نے اس دن فیصلہ کیا کہ محنت مزدوری کرلونگا لیکن دوبارہ حلف نہیں لونگا
ممبران  صوبائی سلیکشن بورڈمسکرائے اور لسٹ پر دستخط کردیئے
صفی الدین اعوان


3 comments:

Unknown said...

زبردست لکھا ہے
سیکورٹی کوڈ ختم کرلیں۔شکریہ

Unknown said...

اچھا جی بہت خوشی ہوئی تعریف سن کر آپ کو تو پتا ہی ہے کہ تعریف جھوٹی بھی ہوتو اچھی لگتی ہے سیکورٹی کوڈ ختم ہی نہیں ہورہا کیا کروں سمجھ نہیں آتا

Anonymous said...

hi