Powered By Blogger

Thursday 3 July 2014

جیسے تمہارے دانت سفید ہیں ویسے ہی بال بھی سفید ہونگے :تحریر عشرت سلطان

پاکستانی معاشرے میں ایک عورت کی زندگی کن  مسائل کا شکار اس کا حقیقی معنوں میں احساس مجھے دستگیر لیگل ایڈ سینٹر کی کوآرڈینیٹر کے طور پر  فرائض سنبھالنے کے بعد ہوا
کل ایک پختون فیملی اپنے  ایک فیملی کے مسئلے کو لیکر ہمارے سینٹر میں آئی وہ زرا مذہبی لوگ تھے انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی پانچ سال پہلے بیرون ملک مقیم ایک شخص سے کی تھی جو ان کو قریبی رشتہ دار بھی تھا شادی کے ایک ماہ بعد اس کا شوہر واپس بیرون ملک چلاگیا اور لڑائی جھگڑوں کے بعد لڑکی واپس اپنے ماں باپ کے گھر آگئی۔ شوہر اگلے سال پاکستان واپس شفٹ ہوگیا لیکن لڑکی سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور وہ معصوم لڑکی ایک بے نام سے رشتے کے ساتھ اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی جس نے پلٹ کر خبر تک نہیں لی  اسی چکر میں پانچ سال گزرچکے تھے
مجھے خوشی ہوئی کہ ان کی ایک بیٹی گریجویٹ تھی جو سوشل میڈیا استعمال کرتی تھی اور سوشل میڈیا ہی کے زریعے ان کو دستگیر لیگل ایڈ سینٹر کے بارے میں معلومات ملی تھی
مختصر یہ کہ   ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ایک اہم بات سامنے آئی کہ اس لڑکی کا حق مہر اچھا خاصا لکھا ہوا تھا اور شوہر کا ذاتی مکان بطور حق مہر لکھا ہوا تھا جس کی مالیت کم ازکم  تیس لاکھ سے زیادہ تھی متاثرہ لڑکی کی نفسیاتی کونسلنگ کے دوران اس لڑکی نے ایک انکشاف کیا کہ وہ اکثر اپنے شوہر سے اپنے طور پر گھر والوں سے چھپ کر رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اس کے شوہر نے نہ صرف اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ جس طرح تمہارے دانت سفید ہیں اسی طرح تمہارے بال سفید ہوجائیں گے لیکن میں تمہیں طلاق بھی نہیں دوں گا اس لڑکی کی اس بات نے مجھے لرزا کر رکھ دیا کہ یہ کونسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں اتنی دیدہ دلیری سے انسان نما درندے ایک معصوم لڑکی کے جذبات سے کھیل جاتے ہیں  ایک لڑکی سے شادی کے بعد پانچ سال تک پلٹ کر خبر تک نہیں لیتے اور لڑکی ایک  نام  کے رشتے کے ساتھ پانچ سال گزاردیتی ہے اور لڑکی  کو دیدہ دلیری سے یہ کہا جاتا ہے کہ  "جس طرح تمہارے  دانت سفید ہیں اسی طرح تمہارے بال بھی سفید ہوجائیں گے  لیکن تم کو طلاق نہیں دونگا" نہ ہی آباد کروں گا
یہ ایک مضبوط کیس تھا اگر لڑکی نان نفقے اورحق مہر کا مطالبہ کرتی تو وہ درندہ نما انسان اپنے انجام کو ضرور پہنچتا جس نے ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا اس قسم کے کیسز میں دستگیر لیگل ایڈ سینٹر تجربہ کار وکلاء کے پینل کے ذریعے متاثرہ خواتین کی بھرپور قانونی معاونت فراہم کرتا ہے اگرچہ اس قسم کے معاملات میں قانونی کاروائی زرا سا طویل ہوجاتی ہے لیکن لڑکی اگر اپنا حق مانگنے پر آمادہ ہوتو اس قسم کے لوگ کسی صورت میں قانون کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے چاہے ہمارا عدالتی نظام کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو
لیکن لڑکی کی والدہ نے کہا ہمیں خلع چاہیئے ان کیلئے یہ بھی ایک بہت بڑا ریلیف تھا کہ  ان کی بیٹی کے بال سفید ہونے سے بچ جائیں گے اور وہ خلع کے زریعے علیحدگی اختیار کرکے  اس بے نام رشتے سے نجات حاصل کرلے گی
ہمارے سینٹر میں  انتہائی قابل نفسیاتی ڈاکٹرز کا پینل بھی ہے جنہوں نے لڑکی کو آمادہ کرلیاکہ وہ نان ونفقے کا کیس داخل کرے گی اور اس شخص کو کسی صورت معاف نہیں کرے گی لیکن والدہ کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں ہورہے تھی اور اس کابھائی ایک ہی جواب دیتا تھا کہ ہماری عورتیں عدالتوں میں نہیں جاتی ہیں  ہمیں  نان و نفقہ نہیں چاہیئے خلع چاہیئے
میں نے کہا کہ خلع کے زریعے لڑکی اپنے تمام حقوق سے  ہی دستبردار ہوجاتی ہے   یہ بھی ایک طرح کا استحصال  ہےاور اس لڑکی کا حق مہر اچھا خاصا ہے کیوں آپ لوگ اپنا حق چھوڑ رہے ہیں  اگر ایک شخص کو سزا ملے گی تو بہت سے لوگوں کو  عبرت حاصل ہوگی  اس کی ماں نے کہا کہ ہم کمزور لوگ ہیں غریب لوگ ہیں  میں نے بتایا کہ دستگیر لیگل ایڈ سینٹر اسی قسم کے لوگوں کی ہی تو قانونی معاونت کرتا ہے جو غربت کی وجہ سے انصاف حاصل نہیں کرپاتے
بدقسمتی سے ہم ناکام رہے اور وہ لوگ واپس چلے گئے کہ ہم لوگ  گھر میں مشورہ کریں گے پھر دوبارہ آئیں گے
لڑکی آمادہ تھی لیکن اہل خانہ آمادہ نہیں تھے ۔ کراچی کے ایک انتہائی دوردراز اور پسماندہ علاقے سےصرف سوشل میڈیا کے زریعے انصاف کی تلاش میں ایک لڑکی کا  اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے پاس آنا کوئی معمولی بات نہیں  لیکن پسماندہ علاقوں میں اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جہاں صرف جہالت کی بنیاد پر ضد اور انا کی بنیاد پر شادی شدہ خواتین ایک نام کے رشتے کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتی ہیں
ضد اور انا کی بنیاد پر دانتوں کے ساتھ ساتھ بال بھی سفید ہوجاتے ہیں۔ کاش عدالتوں میں وقت پر کام ہوتا اور لوگوں کو انصاف کا یقین ہوتا تو اس قسم کے واقعات کبھی پیش نہ آتے اس واقعے نے ذہنی طور پر بہت متاثر کیا

نوٹ سوشل میڈیا میں واقعات پیش کرتے وقت  متاثرہ لوگوں کی اصل شناخت کو چھپا لیا جاتا ہے 

2 comments:

منصور مکرم said...

کاش اسطرح کے سنٹر ملک بھر میں ہوتے۔

Anonymous said...

اگر ایک شخص کو سزا ملے گی تو بہت سے لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی