Powered By Blogger

Thursday 10 July 2014

ملزم نے جان سے ماتٓرنے کی نیت سے فائرنگ کی میں نے بھاگ کر جان بچائی

2003 میں میرے کزن پر ایک کیس بنا جس کا سادہ سا عنوان یہ تھا کہ مدعی مقدمہ گھر کے باہر بیٹھا تھا میرا کزن چار افراد کے ہمراہ آیا پستول ہاتھ میں تھے لہرا کر کہا آج تم نہیں فائرنگ کی مدعی نے بھاگ کر جان بچالی
میرے کزن نے ایم بی اے کیا ہوا تھا اور ایک نجی کمپنی میں آفیسر تھا اس کے تو فرشتوں  کو بھی اس واقعے کا علم نہ تھا یہ ایک جھوٹا مقدمہ تھا اس وقت میں ایل ایل بی کا سوچ رہا تھا  پھر ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لیا اور ایل ایل بی کرہی رہا تھا کہ 2005 میں میرا کزن کراچی آیا ضمانت قبل از گرفتاری کروائی  میرا کسی وکیل سے پہلا تجربہ تھا جو اچھا نہ رہا وکیل صاحب کا کزن سے ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا کہ پیسہ لیکر آؤ پیسہ اس طرح دوسال گزرگئے بمشکل دوسال میں چارج فریم ہوا تھا ڈسٹرکٹ ویسٹ کی جج تھی طاہرہ محسن اس کا شوہر بھی جج تھا بدقسمتی سے ایماندار تھی یعنی کام تو کرتی ہی نہ تھی کراچی میں ایماندار جج وہ ہے جو کسی کاکام نہ کرے  کیونکہ اس کو کا م آتا ہی نہیں ہوتا مختصر یہ کہ کزن نے چار سال مقدمہ بازی برداشت کی اس کے بعد میں نے ایک  "لڑکے" کی خدمات حاصل کیں  جو  125  موٹرسائیکل پر صرف آنے جانے کا ٹائم لگا تا تھا۔جس نے جج پر تھرڈ ڈگری استعمال کی جج صاحبہ صبح سویرے آئیں پسینہ پسینہ سب سے پہلے میری فائل اٹھائی مختصر فیصلہ سنایا کیس بری تمام ملزمان کو باعزت بری کیا اور پسینے میں شرابور چیمبر میں واپس بھاگی گئی
چار قیمتی سال مقدمے بازی کی نظر ہوگئے جن کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا پھر بھی ہمیں ایک جھوٹے مقدمے سے جان چھڑانے کیلئے ایک جرم کرنا پڑا
یار یہ بھی کوئی مقدمہ ہے کہ  چار افراد مل کر آئیں  ایک نہتے بندے پر گولیاں چلائیں اور اس کے باوجود اس کو کچھ بھی  نہ ہو کیا اس بات کو عقل مانتی ہے لیکن میری عدالتوں میں تو اس قسم کے کیسز ہی کی وجہ سے رونق ہے
بعد ازاں اس طرح کے مقدمات میں میں نے بے شمار افراد کو کورٹ میں زلیل ہوتے ہوئے دیکھا دل چاہتا تھا کہ کوئی تو جج ہو جو اس کے خلاف ایکشن لے آخر اکیسویں صدی ہے کچھ کامن سینس بھی ہوتا ہے
گزشتہ دنوں امید برآئی جب سینٹرل کے ایک جج غلام مرتضٰی میتلو نے کامن سینس استعمال کرہی لیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملزم نے گولی چلائی اور آر پار نہیں ہوئی ان کا مقدمہ نہایت ہی دلچسپ تھا
کھوسو قبیلے کا ایک بااثر شخص  ٹنڈو آدم سےکراچی خمیسو گوٹھ آیا وہ موٹر سائیکل پر نیو کراچی جارہا تھا کہ اس کے قبیلے کے چار دشمن بھی اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر پہنچ گئے ان چاروں کے پاس پستول تھے فائرنگ کی مدعی نے موٹر سائیکل کا رخ قبرستان کی طرف موڑا اور قبرستان کی دیوار کے پیچھے چھپ کر جان بچائی بڑے ہی کوئی اناڑی قسم کے ٹارگٹ کلر تھے  چار مسلح افراد ایک بندے کو مل کر نہ مارسکے فوری طور پر نیوکراچی تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اتفاق دیکھئے کہ تفتیشی افسر بھی اسی قبیلے  اور اسی گاؤں کا تھا جس سے ملزم اور مدعی کا تعلق تھا پولیس نے اعلٰی کارکردگی دکھائی اور ملزمان کو ٹنڈو جام سے پکڑ کر کراچی لے آئے
مجسٹریٹ صاحب اس پورے مقدمے پر ہی تحفظات کا اظہار کردیا کہ   اور اس پر بھی تحفظ کا اظہار کردیا کہ کراچی شہر میں ایک مقدمہ درج ہوا اور مدعی ملزمان اور تفتیشی افسران تمام کھوسو قبیلے  اور ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں
مجسٹریٹ صاحب نے ایس ایس پی کو بزریعہ کورٹ آرڈر اپنے تحفظات سے آگاہ جس کے بعد ضلع ایس ایس پی نے نیا تفتیشی افسر مقرر کردیاہے امید ہے نیا تفتیشی افسر وہ ٹیکنالوجی تلاش کرکے ضرور لائے گا جس میں مدعی پر ملزم گولیاں نہایت قریب سے چلاتے ہیں اور وہ بھاگ کر جان بھی بچالیتا ہے
یہاں بہت سے ایماندار جو کام نہیں جانتے وہ پوچھیں گے اس میں تو ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن میں تو اس کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں کیونکہ اگر مجسٹریٹ  روزمرہ کی پریکٹس کے مطابق کام کرتا تو پولیس معمول کے مطابق چالان کرتی جج حسب معمول انتظامی آرڈر کرتا اور ملزم کے چار قیمتی سال ان عدالتوں میں ہی ذلیل ہوجاتے جس کے بعد ملزم باعزت بری ہوجاتے
کریمینل جسٹس سسٹم ایک سوشل سائینس ہے   ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے کہ  بے گناہ کو ریلیف ملے ضابطے انسان کیلئے ہیں انسان ضابطوں کیلئے نہیں
بہرحال ایک اچھا  آغاز ہے کہ کسی نے تو پہل کی کسی نے تو کامن سینس استعمال کیا یا کرنے کی کوشش کی
امید ہے ملزمان کو تفتیش میں بے گناہ قرار دے دیا جائے گا یا پھر ملزمان  کی مدعی سے صلح کروا کر مقدمہ داخل دفتر کروادیا جائے گا

ویسے تفتیشی افسر نے گرم گرم کھایا تو پکڑا گیا فراڈ کرنے بھی نہیں آتا اس قسم کے مقدمات میں ملزمان کو چالان جمع کروانے کے بعد  اور مجسٹریٹ کے انتظامی آرڈر کے بعدگرفتار کیا جاتا ہے  اتنی جلدبازی دکھانے کی ضرورت ہی کیا تھی نالائق  اور نااہل تفتیشی افسر

No comments: