Powered By Blogger

Friday 18 July 2014

ارادے کی پختگی


وکالت کے شعبے میں ارادے کی پختگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔اگر آپ کو اپنی کامیابی کا یقین ہے تو آپ ضرور کامیاب ہونگے۔بہت سے دوست کلائینٹ کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو پورا نہیں کرتے جس کا انہیں نقصان پیشہ ورانہ طور پر ہوتا ہے میں نے ایک دوست کو گزشتہ چند سال کے دوران ترقی کی بے شمار منازل طے کرتے ہوئے دیکھا ایک چھوٹے سے آفس سے ایک شاندار انٹرنیشنل معیار کے آفس میں جاتے ہوئے دیکھا  گزشتہ دنوں ان کے آفس میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ایک تو کام سیکھنے کی لگن تھی دوسرا اچھا سینئر بھی مل گیا جس کی ہرحال میں عزت کی اگر سخت الفاظ بھی کہے تو برداشت کرلیئے جو کام  سینیئر کی جانب سے ملا وہ وقت پر کیا اسی دوران ان سے یہ بھی سیکھا کہ انہوں نے لاء فرم کس طرح سے بنائی ہے ان کی آفس کی ریکارڈ کیپنگ کی بنیاد کیا ہے جو کیس لے لیا چاہے چھوٹا ہو یا بڑا فیس کم لی یا زیادہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا کلائینٹ کے اعتماد کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر کیسز وکلاء ریفر کرتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ایک کیس 1996 میں ملا تھا  کلایئنٹ کی جرح کے بعد اس سے رابطہ بھی نہ ہوا میں نے سولہ سال اس کیس کو چلایا اور سولہ سال بعد اس کیس کو جیتا تو میرے پاس کلایئنٹ کا نمبر تک نہیں تھا مختصر یہ کہ اس کے ایڈریس پر رابطہ کرکے اس کو اطلاع دی جس کے بعد جب وہ ملے تو بےتحاشا خوش تھے ایک تو جس جائیداد کے حصول کیلئے کیس داخل کیا تھا وہ اس کو بھول بھال چکے تھے ان کیلئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ایک وکیل نے کیس کی مکمل فیس لینے کے بعد سولہ سال تک کیس چلایا اس کے باوجود کے انہوں نے کبھی رابطہ نہیں کیا کیونکہ وہ تو بھول بھال چکے تھے ایک تو اس نے مزید فیس ادا کی مزید یہ کہ اس نے مزید کیسز مجھے دیئے اور اپنے ذاتی تعلقات کے زریعے مجھے کیسز دلوائے اس ایک کیس کے زریعے مجھے لاکھوں روپے کا فائدہ ہوا
اس کے علاوہ اگر ہم دیکھیں تو ایک اور چیز ہوتی ہے ایک معیار بنانا جس وکیل نے وکالت کے پیشے میں ایک معیار بنایا وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے لیکن اپنے ہی قائم کردہ معیار کے مطابق ہی کامیاب ہوگا
جب کالج سے ہم فارغ ہوکر عدالت میں آئے تھے تو چند دوست ایسے بھی تھے جنہوں نے فائینل ائیر کے دوران ہی کسی نہ کسی لاء کمپنی کو جوائن کرلیا تھا اور چند ایک کے پاس وکالت کا لائیسنس بھی موجود تھا ایک دن ہم کراچی کے ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے سامنے کھڑے تھے تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اس نے ضمانت کے کاغزات کورٹ سے نکلوانے ہیں اگر آپ تصدیق کردیں تو میں 200 روپے آپ کو ادا کروں گا ہم سب دوستوں نے تو اس سے صاف صاف منع کردیا کہ ہم 200 والا کام کرتے ہی نہیں ہیں  وہ واپس جانے لگا تو ہمارے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی اس نے اس شخص کو آواز دے کر بلایا  اور کہا چلو میں تصدیق کردیتی ہوں  اگرچہ وہ لڑکی باصلاحیت تھی اور دوستوں کو یقین تھا کہ وہ کسی اچھی پوسٹ پر آئے گی لیکن جیسے ہی اس نے اپنے معیار پر کمپرومائز کیا مجھے یقین ہوگیا کہ شاید اب ایسا ممکن نہ ہو اور وہی ہوا اس دن کی محفل میں موجود وہ تمام دوست جنہوں نے وہ 200 والا کام نہیں لیا تھا  وہ اعلٰی عہدوں پر پہنچے اور اس لڑکی نے بعد ازاں کورٹ محرروں کے ساتھ پریکٹس کی تھانوں کے بدنام زمانہ کورٹ محرر اس کو دیہاڑی والے کیسز دیتے تھے جس  ایک تو اس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی دوسرا اس نے کوئی ترقی نہ کی
ترقی اللہ کی ذات دیتی ہے لیکن ہم اپنا معیار خود بناتے ہیں اور ہم جو معیار بنالیتے ہیں اللہ اسی حساب سے ترقی کے دروازے ہم پر کھول دیتا ہے جو لوگ دھوکہ دہی کا راستہ اپناتے ہیں وہ پوری زندگی دھوکے ہی دیتے ہیں
جووکیل سنجیدگی سے وکالت کرتا ہے قسمت اچھے سینئر کی صورت میں مہربان ہوجائے تو ان کی زندگی ہی سنور جاتی ہے
لیکن ارادے کی پختگی ضروری ہے آپ کو خود اس بات کا پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ آپ ایک نہ ایک دن کامیاب ضرور ہونگے آپ کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ ہو تو  اس وقت بھی آپ کو اپنی کامیابی کا کامل یقین ضرور ہونا چاہیئے جو لوگ مایوس ہوجائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے

No comments: