Powered By Blogger

Friday 18 July 2014

آج تو آرگومنٹ ہونگے

نئے نئے وکالت میں آئے تھے تو ایک وکیل صاحب  جن کے بال سفید تھے اور پورا دن ہمیں اپنے مخصوص ٹھکانے پر بیٹھ کر اپنے قصے اور کہانیاں سناتے تھے دیوانی مقدمات کے ماہر تھے  خود ساختہ سینئر تھے اور پروفیسری کے دعوے دار بھی تھے ہمارے ساتھ ایسے ایسے قانونی نکات شیئر کرتے تھے جو ہم نے خواب میں بھی نہیں سنے ہوتے تھے ہم اکثر ان کے ٹھکانے پر جاکر ان کو تلاش کرتے تھے پھر چوہدری صاحب ہمیں اپنے وکالت کے سارے واقعات سناتے تھے اچھے قصہ گو تھے لیکن چائے صرف لڑکیوں کو پلاتے تھے اس کے علاوہ ان کے پاس ایک عدد "گیدڑ سنگھی" بھی تھی  
ایک دن ہمارے پورے گروپ کو کہا کہ کبھی ضمانت کی درخواست پر دلائل دیئے ہیں ہم نے کہا وڈے چوہدری صاحب  ہمیں کیا پتہ کہ ضمانت کیا ہوتی ہے دلائل تو بہت دور کی بات ہیں چوہدری صاحب نے چشمے کو گھما کر چاروں طرف تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور فرمانے لگے کیا بنے گا تم نالائقوں کا
کہنے لگے کل ایک ضمانت کی درخواست پر "دھواں دھار آرگومنٹ ہونگے" قانون ڈسکس ہوگا  کیس لاء پیش کیئے جائیں گے سپریم کورٹ کی ایک نئی آبزرویشن سامنے آئی ہے اس پر بات ہوگی کل صبح سویرے کورٹ میں آجانا ہم بھی اس زمانے میں نفلوں کے بھوکے تھے صبح سویرے ہی وڈے چوہدری صاحب کے ٹھکانے پر پہنچ گئے کہ آج "آرگومنٹ ہونگے" مجسٹریٹ  کی عدالت تھی اور 13 ڈی کی ضمانت تھی یاسین کولاچی جج ہوا کرتا تھا ویسٹ کی عدالت تھی  وڈے چوہدری صاحب ہمارے پورے گروپ کے ساتھ کورٹ میں پہنچ گئے جج صاحب نے دیکھتے ہی کہا چوہدری صاحب  ضمانت کی درخواست منظور  کی جاتی ہے آپ تیس ہزار روپیہ  کی ضمانت جمع کروادیں وڈے چوہدری نے کہا ایسے کیسے ضمانت منظور ہوگئی ابھی تو آرگومنٹ ہونگے قانون پر بات ہوگئی سپریم کورٹ کے نئے کیس لاء پیش کیئے جائیں گے اور فیصلہ میرٹ پر کیا جائے آج کورٹ میں ایسے دلائل پیش کیئے جائیں گے جو پہلے کبھی پیش نہیں کیئے گئے
جج صاحب بھی سیدھے سادھے نیک آدمی تھے فرمانے لگے میں نے آپ کی درخواست پڑھ لی تھی ضمانت منظور کی جاتی ہے لیکن وڈے چوہدری صاحب اڑگئے کہ آج تو آرگومنٹ ہونگے
جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے شروع کریں
وڈے چوہدری صاحب  نے آرگومنٹ شروع کیئے  یہ قانون وہ قانون یہ کیس لاء وہ کیس لاء  فلاں کلاز فلاں کلاز ایک دلائل کا سمندر تھا جو جاری تھا ریکوری کا قانون ،قانون شہادت کے اوپر بات کی
تھوڑی دیر کے بعد تحسین طلب نگاہوں سے ہماری طرف دیکھتے تھے اور ہم کرتے تھے واہ واہ
خیر دلائل مکمل ہوگئے
جج صاحب نے پوچھا ملزم رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا اس لیئے ضمانت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے پھر جو ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے سارے آرگومنٹ ادھر ادھر ہوگئے چوہدراہٹ ساری ادھر ادھر ہوگئی   جج صاحب سے بحث کی تو فرمانے لگے آپ  نے تو خود کہا تھا کہ میرٹ پر فیصلہ کیا جائے تو میرٹ پر یہی فیصلہ آیا
خیر جج صاحب چیمبر میں گئے تو وڈے چوہدری صاحب بھی پیچھے  پیچھے چلے گئے مختصر یہ کہ  منت سماجت کرکے کوئی نہ کوئی حیلہ کرکے ضمانت منظور کروا ہی لی  اس کے بعد وہ خود ساختہ سینئر پتلی گلی سے نکل گئے
کافی سال گزرگئے آج بھی واقعہ کل کی طرح یاد ہے اور دوست جب بھی جمع ہوتے ہیں تو یہ واقعہ ضرور شیئر کرتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ اب تو آرگومنٹ ہونگے

لیکن وڈے چوہدری صاحب باریک لہجے میں جس طرح کہتے تھے کہ  آج تو آرگومنٹ ہونگے ایسا کوئی نہیں کہہ سکتا

No comments: