Powered By Blogger

Thursday 24 July 2014

کامران خان کی جنگ گروپ سے علیحدگی


پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کی بنیاد رکھنے والے معروف صحافی کامران خان نے آج جیو چینل کو خیرآباد کہہ دیا ان کا آخری شو بھی یادگار رہا اور انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ جیو چینل سے وابستگی کو اچھے الفاظ میں یاد کیا
کامران خان کو اللہ تعالٰی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اور میں نے ہمیشہ انہیں ایک ذمہ دار صحافی کے طور پر دیکھا ہے اگرچہ بے شمار مواقع پر ان کی ذاتی رائے کو تحقیقاتی صحافت پر غلبہ پاتے ہوئے بھی دیکھا ہے جو کہ ہرانسان کے ساتھ منسلک ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طور وہ ذمہ دار صحافی ہیں اور ان کی گھن وگرج کے ساتھ مخصوص آواز ہمیشہ حکمرانوں کیلئے ایک خطرہ رہی ہے اور پاکستانی عوام ان کی رپورٹنگ اور ان کے انداز کو پسند کرتے ہیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے جیو نے جس رویئے کا انتخاب کیا وہ غلطی پر مبنی تھا جیو گزشتہ کچھ عرصے سے صحافیانہ بددیانتی بھی کررہا تھا جو کہ جنگ گروپ جیسے ادارے کیلئے مناسب نہیں تھا اور چینل کی غلط پالیسیوں کو ان کے قارئین بھی کافی دنوں سے محسوس کررہے تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اردو صحافت کا قبل فخر ادارہ بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہوچکا ہے  قانونی جنگ سے ہمیشہ جان چھڑانے والا ادارہ جنگ اس وقت قانونی جنگ کا شکار ہے اور اس کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ اس کے قانونی مشیروں کی ٹیم لے جاتی ہے اور یہ قانونی جنگ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں جیو اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کاپی رائٹ جیسے حساس قانونی مسئلے کا شکار ہے اگرچہ پاکستان میں ان کا قانونی مشیر سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری تھا جنہوں نے چیف جسٹس پاکستان ہونے کے باوجود جنگ کے قانونی مشیر کے طور پر کام کیا اور ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے ادارے کی بے لوث خدمت کی اور ممکنہ طور پر نیئے آنے والے چینل "بول" کا راستہ روکنے کی جنگ کی کوششوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن افتخار محمد چوہدری کے جاتے ہی یہ معاملہ ختم ہوگیا اور شاید نیا چیف جسٹس جنگ کا قانونی مشیر نہیں ہے لیکن   موجودہ سپریم کورٹ کے بنچ میں ان کے قانونی مشیر موجود ہیں جو جنگ گروپ کیلئے میچ فکس کرتے ہیں  لیکن  افتخار محمد چوہدری کے جانے کے بعد ایک خلاء پیدا ہوگیا ہےجس کی وجہ سے تمام میچ فکس نہ ہونے کی وجہ سے جیو اب پاکستان  میں بھی قانونی جنگ ہاررہا ہے  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کامران خان چھوڑ کر چلا گیا ہے اسی طرح افتخار محمد چوہدری کے جان نشین  نے بھی کسی اور ادارے کے قانونی مشیر کے طور پر کام شروع کردیا ہو جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی پوزیشن ہے سب سے اہم ترین کاپی رائٹ کے چند مقدمات امریکہ میں چل رہے ہیں جہاں ادارے کی پوزیشن کمزور ہے
یہی وجہ ہے کہ وہ صحافی جو روزنامہ جنگ کے ساتھ رہنا قابل فخر سمجھتے تھے وہ تیزی سے ادارہ چھوڑ کر جارہے ہیں اور ادارے نے مبشر لقمان جیسے گھٹیا انسان کو منہ لگا کر اپنے آپ ذلت کے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں مبشر لقمان کھڑا ہے
بدقسمتی سے ایک پورے ادارے جنگ اور مبشر لقمان کی ساکھ برابر ہوچکی ہے جب ایک بہت بڑی  صحافتی ایمپائر کا درجہ پاکستان کے سب سے گھٹیا صحافی  کے برابر ہوجائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ اب کہاں کھڑا ہے

1 comment:

افتخار اجمل بھوپال said...

بلا شُبہ یہ ایک بڑا ادارہ بن گیا جیسے اسی طرح ساری دنیا میں بنے ۔ یہ اور اس قسم کے باقی دنیا میں بڑے بڑے ادارے صرف پیسے کے پیر ہوتے ہیں خواہ پیسہ بقول شخصے جوئے بازوں ۔ ڈاکوؤں یا طوائفوں کی کمائی کا ہو ۔ میں نے اپنی زندگی میں ستھرے صحافتی اداروں کو کمزور ہوتے اور پھر غائب ہوتے اور جھوٹ و فحاشی پھیلانے والوں کو پنپتے دیکا ہے ۔ یہی حال صحافیوں کا رہا ہے ۔ سچ لکھنے والے صحافی دو وقت کی روٹی کے محتاج بنے اور فرضی کہانیوں کو حقیقی بنا کر لکھنے والے اور سنسنی پھیلانے والے لکھ پتی اور پھر ارب پتی بنے
اور کیوں نہ ہو ۔ آجکل کے عوام سچی بات تو ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور جھوٹ کو بلا تامل مان لیتے ہیں ۔ کسی دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں لُطف لیتے ہیں اور اسی قسم کے قصے سُننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عوام بھی پیسے کے پیر بن چکے ہیں ۔ نہ اُنہیں اللہ کی پکڑ یاد ہے اور نہ اقدار کا خیال ۔ بعض تو ایسے ہیں کہ اپنے خاندان کو بھی پیسے کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم رکھے