Powered By Blogger

Monday 28 July 2014

کراچی کے اردو بلاگرز کا افطار ڈنر


کل بروز اتوار کراچی کے اردو بلاگرز کی جانب سے ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کراچی  میں رہایئش پذیر اردو بلاگرز شریک ہوئے یہ دوستوں کی جانب سے ایک بہترین کاوش تھی آپ دوست جو کچھ اردو بلاگ کی صورت میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے پیچھے ایک پوری ٹیم موجود ہے جنہوں نے بے لوث ہوکر اردو زبان کی ترقی کیلئے دن رات کوشش کی اور اپنے ذاتی وسائل اردو بلاگنگ کیلئے وقف کیئے ہیں
میری ان دوستوں سے یہ پہلی ملاقات تھی جو کہ کافی اچھی رہی
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اردو بلاگنگ ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے جس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب آج سے ایک سال پہلے میں نے باقاعدہ بلاگ لکھنا شروع کیا اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ  اردو بلاگ کون پڑھتا ہوگا اس دوران دوستوں نے انگلش بلاگ لکھنے کا بھی مشورہ دیا لیکن  وہ سلسلہ کامیاب نہ ہوا
اردو بلاگ لکھے اور سوشل میڈیا کی آزادی سے خوب فائدہ اٹھایا بعد ازاں جب اس سارے معاملے کا فیڈبیک آنا شروع ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اردو بلاگ  صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اس کے قارئین موجود ہیں جب کے میرے بلاگ کے  ساٹھ فیصد قارئین امریکہ میں ہیں اسی دوران  سوشل میڈیا پر موجود آزادی کا جب زیادہ  "فائدہ " اٹھایا تو دوستوں کی جانب سے دبی دبی سی تنقید سامنے آنا شروع ہوئی جس کے بعد میں نے بھی ذرا سا محتاط رویہ اختیار کیا اور قاریئن کی خاطر لکھنا شروع کیا
اردو بلاگنگ سے رابطوں میں بہت ہی زیادہ اضافہ ہوا حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک کے پاکستان میں مفادات ہیں وہ اردو بلاگ پر گہری نظر رکھتے ہیں  جن میں ایران،امریکہ،سعودیہ،برطانیہ وغیرہ شامل ہیں اور چند غیر ملکی سفارت کار بذریعہ ای میل اپنی رائے باقاعدگی سے دیتے ہیں بیرونی دنیا کیلئے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پاکستانی عدلیہ میں اکیسویں صدی میں بھی  فنگر پرنٹ اور فرانسسک  شھادت کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ اس  جھوٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اگر جھوٹ بولا تو اللہ کا قہر اور عذاب مجھ پر نازل ہو
اٹلی اور ترکی پاکستان کی سول عدلیہ سے دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے تجارتی مفادات پاکستان سے منسلک ہیں جبکہ امریکہ اور جرمنی فوجداری نظام میں اصلاح سے دلچسپی رکھتے ہیں  اور اس کیلئے اعلٰی عدلیہ کو امداد بھی دیتے ہیں لاء سوسائٹی کے بلاگ کی وجہ سے پاکستان میں موجود ایک غیر ملکی سفارت خانے نے جس کے تجارتی مفادات پاکستا ن میں ہیں ہم سے پاکستان میں موجود ان قوانین  کے حوالے سے رائے لی جن کا اطلاق پاکستانی بندرگاہوں پر ہوتا ہے اور اپنی تجارتی پالیسی  ان قوانین کی روشنی میں مرتب کرنے کے بعد ہمارا شکریہ ادا کیا کیونکہ   غیر ملکیوں کیلئے تجارتی پالیسی میں بندرگاہ سے متعلق قوانین بہت اہمیت رکھتے ہیں
لاء سوسائٹی پاکستان ایک این جی او کا نام ہے جو میں نے اور میرے دوستوں نے عدالتی اصلاحات کیلئے بنائی تھی اور میرے بلاگ کا نام بھی لاء سوسائٹی پاکستان ہے مختصر یہ کہ یہ بلاگ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا  ۔عوام الناس کے سامنے عدلیہ کے حوالے سے بہت کچھ آیا۔کیا مشکلات ہیں وہ پہلی بار سامنے آئیں کئی بار تنقید اس قدر کھل کر ہوئی کہ  اعلٰی عدلیہ میں موجود حمایتی پریشان ہوگئے چند تحاریر پر سندھ ہایئکورٹ  نے اندرونی طور پر نوٹس لیئے گئے 
بلاگ کے زریعے ہمیں معاونین کی ایک بہت بڑی تعداد میسر آئی اور لاءسوسائٹی کا پیغام پوری دنیا میں پھیلا اسی دوران چند ایسے معاونین بھی ملے  جنہوں نے ادارے کے ساتھ معاونت کی میرے ایک امریکہ میں موجود قاری نے بے حد اصرار کے ساتھ مجھے لاء سوسائٹی کے آفس کیلئے جدید ماڈل کے کمپیوٹر ز اور لیپ ٹاپ بھیجے   یہ ہر لحاظ سے حیرت انگیز ہے  اسی دوران ایک امریکی ادارے نے اسکالر شپ کے حوالے سے ہی میرے ایک امریکہ میں موجود قاری کے توسط سے رابطہ کیااس کے علاوہ  اردو بلاگ کے قارئین  کی کثیر تعداد کتابوں کے تحائف بھیجتی ہے اس کے علاوہ اردوزبان سے محبت رکھنے والی بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں اردو کی ترویج اور اشاعت کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں اس حوالے سے انہوں نے بھی رابطے کیئے ہیں
ایک سال کے عرصے میں پوری دنیا میں موجود قارئین کی بہت بڑی تعداد نے ہم سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں کبھی کبھی احسا س ہوتا ہے کہ شاید ہم ان توقعات پر پورا نہ اتر سکیں
آج قارئین کی بہت بڑی تعداد جو دنیا بھر میں موجود ہیں جو لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کو پڑھتی ہے  اور اپنا ردعمل دیتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو بلاگ کو اپنا دائرہ مزید وسیع کرنا ہوگا
تجارتی دھارے میں لائے بغیر مستقل بنیادوں پر اس کو جاری رکھنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور  ہوگا
گزشتہ شب افطار ڈنر کے دوران مجھے احساس ہوا کہ اردو بلاگرز کے گروپ میں  اضافے کی ضرورت ہے  ہر طبقہ فکر کی نمائیندگی ہونی چاہیئے  خواتین بلاگرز کی کراچی میں فعال نمائیندگی کی ضرورت ہے سوشل سیکٹر کے لوگوں کی ضرورت ہے
جس قدر وسیع تجارتی میدان اس شعبے میں موجود ہے اس سے تجارتی بنیادوں پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جب مالی مفادات منسلک ہونگے تو  دوست پروفیشنل بنیادوں پر اردو بلاگنگ میں زور آزمائی کریں گے نئے باصلاحیت لوگ سامنے آئیں گے بڑے میڈیا گروپس کے ساتھ نیٹ ورک بنانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ان کا اپنا دائرہ کار ہے   پرنٹ میڈیا میں ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے بڑے بڑے لکھاری اپنے روایتی اخبارات چھوڑ کر جاچکے ہیں  اسی دوران ان کا ٹیمپو بھی ٹوٹ چکا ہے ، پہلے جیسی بات نہیں رہی اور اردو صحافت کو اس وقت شدید ضرورت ہے کہ نئے لوگ سامنے آئیں  قارئین بے چینی سے منتظر ہیں کہ کوئی نیا نام سامنے آئے جو افکار و خیالات سے دھوم مچادے جس کے قلم کی دھار عوام کے جذبات کی نمائیندہ بن جائے
وہ کمی اردو بلاگرز  اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پاکستان میں اردو بلاگنگ ایک حقیقت ہے  اور کئی اردو بلاگرز بہت اچھا لکھتے ہیں  اور مکمل بے ساختگی کے ساتھ لکھتے ہیں لیکن اس کو تجارتی بنیادوں پر منوانے کی ضرورت ہے  اردو بلاگرز کو میرا مشورہ ہے کہ  کم ازکم کراچی کی سطح پر اپنی ایسوسی ایشن تشکیل دیں ایک باقاعدہ  آفس  کی بنیاد رکھیں جس میں پروفیشنل بنیادوں پر اردو بلاگرز کو سامنے لانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان کے  چند بڑےتجارتی ادارے اس شعبے میں اسپانسر شپ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسپانسر شپ حاصل کرنے کیلئے بعض اہم شرائط پوری کرنا تجارتی نقطہ نظر سے ضروری ہیں جن میں سب سے اہم ترین شرط ادارے کا رجسٹرڈ ہونا اور ادارے کی مستقل پالیسیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جس کی روشنی میں کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی اپنے تجارتی مفادات کو سامنے رکھ کر معاہدہ کرتی ہے  امید ہے دوست اس پر غور کریں گے  
افطار ڈنر کا شکریہ  رائے دیتے ہوئے کچھ ناگوار گزرا ہو تو معذرت 

7 comments:

sheikho said...

آپ کی باتوں پر مثبت انداز میں سوچا جا سکتا ہے

منصور مکرم said...

اس اتحاد کے بارے میں باقاعدہ ایک ہینگ آوٹ میں تفصیلی بات اس وقت ہوئی تھی،جب کچھ اردو بلاگرز کے بلاگز کو بلاوجہ بلاک کرنے کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

بلکہ باقاعدہ ایک نام بھی تجویز شدہ تھا(اردو بلاگرز ایسوسی ایشن)یار دوست اسکو (ابا ) کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

لیکن بعد میں سستی کے سبب اور خطرے کے ٹل جانے کے سبب یہ قدم نہ اٹھایاجا سکا۔

اگر احباب اس بارے سنجیدہ طور سے سوچھیں تو بات اردو بلاگرز کے مفاد میں زیادہ جاتی ہے،اعتراض تو ہر چیز پر ہوتا ہے،لیکن لوگ کثرت منافع کو دیکھتے ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال said...

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

کہتے ہیں شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے ۔ سو آپ کو آپ کا صلہ مل گیا اور مل رہا ہے اور وہ بھی ایک ڈیڑھ سال کے قلیل عرصہ میں
میں نے 2004ء میں بلاگ شروع کیا جس پر انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں لکھنا شروع کیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب لوگ باگ یہ سمجھتے تھے کہ بلاگ پر اُردو نہیں لکھی جا سکتی ۔ لیکن مجھ سے بھی پہلے اُردو میں بلاگنگ شروع ہو چکی تھی جس کے صناع تھے چند جوان جن میں سے اس وقت میرے ذہن میں ہیں ۔ زکریا اجمل (جس نے بنیاد رکھی اور اُردو ویب ۔ اُردو محفل وغیرہ شروع کئے) ۔ دانیال (جس نے زکریا کی مدد کی)۔ حارث بن خُرم (جس نے بلاگنگ کیلئے انگریزی کی بورڈ پر پہلا اُردو کی بورڈ بنایا) ۔ میں نے بھی پاؤ بر حصہ ڈال دیا تھا جو ایک من کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ تھا ۔ چند اوروں نے بھی میری طرح پاؤ بھر حصہ ڈالا جن میں قابلِ ذکر ہیں قدیر احمد جنجوعہ
لُطف کی بات ہے کہ جن جوانوں نے دن رات محنت کر کے اُردو کو بلاگ پر متعارف کرایا اور دوسروں کی حوصلہ افزائی بھی کی اُن میں سے سوائے میرے کوئی بھی اب بلاگ نہیں لکھتا
بلاگنگ شروع کرتے وقت میرا خیال تھا کہ یہ شوق تین چار ماہ سے زیادہ نہیں چل پائے گا لیکن صورتِ حال یوں بنی کہ مجھے اپنا پہلا بلاگ انگریزی کیلئے مُختص کر کے مئی 2005ء میں اُردو کا الگ بلاگ بنانا پڑا ۔ آج اللہ کے فضل اور نُصرت سے یہ دونوں بلاگ فعال ہیں اور ساری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں ۔ پاکستان کے علاوہ چیدہ ممالک ہیں ۔ بھارت ۔ بنگلہ دیش ۔ جاپان ۔ چین ۔ روس ۔ ایران ۔ جرمنی ۔ اٹلی ۔ ہسپانیہ ۔ برطانیہ ۔ سعودی عرب ۔ عرب امارات ۔ قطر ۔ امریکہ اور چند افریقی ممالک
مقصد چونکہ خدمت تھا اسلئے آج تک دولت کمانے کی طرف توجہ نہ ہوئی اور ان شاء اللہ ایسا ہی رہے گا جب تک اللہ نے ہمت دیئے رکھی۔ میرا انگریزی کا بلاگ ایک بلا معاوضہ ویب سائٹ پر ہے جبکہ اُردو کا بلاگ خرید کردہ ویب سائٹ پر

Unknown said...

ہم بھی اردو بلاگر ہیں اور آپ کی باتوں سے اگر پوری طرح نہیں تو کچھ ھد تو اتفاق کرتے ہیں ۔ لاہوریوں ایک افطار ہی رکھ لیتے

Unknown said...

محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب میرے خیال میں اور میرے ناقص علم کے مطابق شکر خورے کا لفظ طنزیہ محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے جہاں تک دولت کمانے کی بات ہے تو آپ اپنی ایک بھرپور اننگ کھیل چکے ہیں آپ کا میں دل سے احترام کرتا ہوں اس حقیقت کو ہمیشہ سے جاننے کے باوجود کے آپ کے دل میں میرے لیئے کیا جزبات ہیں لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے زندگی کی بھرپور اننگ نہ کھیلی ہوتی اور پہلی اننگ میں دولت کما کر ذخیرہ نہ کی ہوتی اور پنشن کا سہارا نہ ہوتا تو کیا آپ کیلیئے یہ ممکن تھا کہ آپ یہ نیکی کاکام کرتے؟
شاید اس سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں ہوگا
قابل احترام بزرگ آج مجھے آپ کا یہ طنز بہت برا لگا
جس نے بھی آپ کی تربیت کی تھی یہ نہیں سکھایا کہ کسی کا دل دکھانا کتنی بری بات ہوتی ہے اور کیا آپ کی تربیت میں یہ شامل نہیں تھا کہ کسی کے حوالے سے بلاوجہ کوئی رائے نہیں قائم کرنی چاہیئے
آج آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہمیرے متعلق آپ کی رائے کم علمی پر مبنی ہے آپ کو جن وکیلوں نے لوتا میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں لیکن ان وکلاء نے جنہوں نے آپ کا پیسہ لوٹا ان کی بنیاد پر دنیا بھر کے وکلاء کو چور ڈاکو سمجھنا ایک پرلے درجے کی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے جس عدالتی نظام سے پاکستانی عوام تنگ ہے صرف اس وجہ سے آپ اس کے تحفظ کیلئے ہمیشہ آواز بلند کرتے رہتے ہیں کہ ایک وکیل آپ کے پیسے کھا گیا تھا تو اب وکیل جو بھ بات کریں گےجھوٹ پر مبنی ہوگی
اگر ایک ڈاکٹر آپ کے پیسے کھاجائے گا تو ساری دنیا کے ڈاکٹر آپ کی نظر میں مجرم ٹہریں گے اگر ایک مولوی آپ کے پیسے کھا جائے گا تو آپ پوری دنیا کے علماء کو چور سمجھیں گے

افتخار اجمل بھوپال said...

میرے تبصرے کے باعث آپ کو تکلیف پہنچی جس کیلئے میں دست بستہ معافی کا خواست گا ر ہوں ۔ گر قبول افُتد زہے عز و شرف ۔ میں نے آج تک جب بھی کسی کے بلاگ پر تبصرہ کیا ہے صرف بلاگ کی درست رہنمائی کیلئے کیا ہے ۔ میں بچپن سے لے کر آج تک نہ کسی کو گالی دی ہے ۔ نہ کبھی کسی پر طنز کیا ہے اور نہ کبھی کسی کا مذاق اُڑایا ہے ۔ دیگر آپ کا یہ خیال درست نہیں کہ ”خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے“ طنزیہ جملہ ہے ۔ یہ جملہ عام طور پر لوگ اپنے اُوپر یا انے احباب کیلئے استعمال کرتے ہیں
ممکن ہے جب آپ نے میرا تبصرہ پڑھا اُسے قبل آپ کسی ایسے ماحول میں ہوں جس کے زیرِ اثر آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں نے طنز کیا ۔
آپ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے میرے بزرگوں جن میں میرے محترم اساتذہ بھی شامل ہیں اور کوئی بھی بحیات نہیں ہے کی تربیت ہی کو غلط قرار دے دیا ۔ آپ نے مجھے بد دیانت بھی قرار دے دیا اور دل کا سارا غبار نکال لیا ۔ اس سے کم از کم آپ کی ٹینشن دُور ہوجائے گی جو میرے خیال مین اچھی بات ہے ۔ کسی کا بھلا مجھے بُرا کہہ کر ہو جائے تو اچھی بات ہے
میں نے ماضی میں جو اظہار خیال کیا اُس کی وجہ آپ کا جج صاحبان کو بُرا بھلا کہنا تھا اور میں نے آپ کو احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ جب تک وکلاء ٹھیک نہیں ہوں گے جج ٹھیک نہیں ہو سکتے اور یہ مین آج بھی کہتا ہوں
بہرحال میں آپ کا مشکور ہوں کیونکہ میرے بزرگوں نے مجھے یہ بھی تربیت دی تھی کہ جسے کوئی بُرا کہے اور اس نے برائی نہ کی ہو تو اللہ اُس کی کچھ غلطیاں معاف کر دیتا ہے
خوش رہیئے میں ان شاء اللہ آج کے بلاگ پر آ کر آپ کیلئے زحمت کا سبب نہیں بنوں گا

Unknown said...

محترم اجمل بھوپال صاحب میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں
میری تجویز کا مقصد یہ تھا کہ جو نوجوان بلاگنگ کررہے ہیں وہ صرف شوقیہ کررہے ہیں اگر اس شعبے کو باقاعدہ تسلیم کروالیا جائے تو ہمارے بلاگرز کو شوق کے ساتھ ساتھ کچھ بلاگنگ آنے والے وقت میں ایک بہت بڑی تجارتی مارکیٹ ہے اور انشاء اللہ بہت سے لوگ اس میں پروفیشنل بنیادوں پر شامل ہونگے آمدن کا بھی ذریعہ بن جائے گا
میں نے اس ماحول میں اس محاورے کو شدید طنز سمجھا
آپ کی رائے کا میں احترام کرتا ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ میرے متعلق کیا سوچتے ہیں
وہ آپ کی رائے ہے جس پر انسان کا اپنا اختیار ہے میری دعا ہے کہ وہ رائے میرے حق میں بہتر ہوجائے

سخت الفاظ پر مجھے شدید افسوس ہے