Powered By Blogger

Wednesday 30 July 2014

اندھا اعتماد کامیابی کی پہلی اور آخری شرط


دوسال پہلے کوئی میرے بیس دوست جمع ہوئے عاقل بالغ دانش اور علم کے بہتے ہوئے سمندر انہوں نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی اس کا نام رکھا "رول آف لاء" بنیاد رکھنے کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ تحریک کا منشور دستور جھنڈا ترانہ اور لوگو اتفاق رائے سے بنائے جائیں گے اس کے بعد صدر وغیرہ کا سوچیں گے اس دوران تحریک کام کرتی رہے گی  لیکن ایک بورڈ  اور عارضی صدراس کا انتظام سنبھالے گا مجھے شمولیت کی دعوت تھی میں نے مصروفیت کی وجہ سے شمولیت اختیار نہیں کی
چند روز بعد مہم نے ایک  چھوٹی سی تحریک کی بنیاد رکھی  گنتی کے تین یار دوست تھے جنہوں نے  زبردستی مجھے صدر بنادیا حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا دوسرے ہی دن میں نے منشور دستور مقاصد پروگرام لوگو اور بے ضرر قسم کا ممبرز بورڈ آف دائریکٹر تشکیل دیا  یعنی  "ساہ نکلے پر آہ نہ نکلے" ممبر کی سانس نکل جائے لیکن آواز نہ نکلے یعنی میرے اچھے دوست  بورڈ کے ممبر تھےاور تیسرے ہی دن ہماری ٹیم میدان  میں اترچکی تھی
میں نے اختیارات کا استعمال شروع کیا ایک پالیسی لائی اس پر عمل کیا پہلی ٹیم میدان میں اتاری وہ  تو فوراً ہی تتر بتر ہوگئی فوری طور پر دوسری ٹیم میدان میں اتر چکی تھی فیصلہ سازی میرے پاس تھی میں فیصلے کرتا گیا آگے بڑھتا چلا گیا ہماری  نوزائدہ تحریک کو بہت سے چیلنجز بھی تھے  اور ٹیم ان چیلنجز کا مقابلہ کررہی تھی  ہر سطح اور ہرمیدان میں چیلنجز تھے پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی اور پلان بی کی ناکامی کے بعد پلان سی تیار ہوتا تھا چیلنج آئے  لیکن مقابلہ کیا اسی دوران منشور میں بھی تبدیلی ہوئی اور بعض مقاصد میں بھی تبدیلی ہوئی بورڈ کے  بے ضررممبران بھی  تبدیل ہوتے رہے بعض مستعفی ہوئے بعض کی مصروفیات کی وجہ سے چلے گئے اور کچھ کو اختلاف برائے اختلاف تھا تو چند ایک کو نیت پر ہی شک تھا اور چند نے تو دلوں کا حال جان لیا تھا حالانکہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے  دو دوستوں نے  عین عصر کے وقت روزہ توڑ دیا کہ یار تحریک ناکام ادارہ ناکام ہوگیا ہم جارہے ہیں  اور مخالف گروپ زیادہ اچھی آفر کررہا ہے  اور آپ لوگوں کے پاس تو ویسے بھی کسی کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں حالانکہ میں ان کے پاس یہ خوشخبری لیکر گیا تھا کہ ہم ایک بہت بڑا معاہدہ دستخط کررہے ہیں
ایک سال کے اندر اندر پوری ٹیم تبدیلی کے عمل سے گزرچکی  ہے جس نے جانا تھا وہ چلا گیا جس نے رہنا تھا رک گیا اسی دوران تحریک کئی سنگ میل عبور کرچکی تھی ہم کسی کو جواب دہ نہ تھے  سب سے زیادہ گڑبڑ ممبرز بورڈ آف ڈائریکٹر کرتے ہیں  اس کا تو حال یہ تھا کہ "ساہ نکلے پر آہ نہ نکلے"  اکثر بورڈ آف ڈائریکٹرز کا یہ حال ہوتا ہے کہ کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے مفت کی سیاست  ہمیں بتایا  نہیں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا  یہ نہیں ہوا تو وہ کیوں ہوا  فلاں سے اکیلے کیوں ملاقات کی  ہمیں کوئی خبر نہیں ہم اس مرض سے آزاد تھے   وسائل ہمارے اپنے تھے پالیسی ہماری اپنی تھی   اللہ ہمارے لیئے راستے بنارہا تھا معاون پیدا ہورہے تھے اسی دوران ایک تنقیدی  دوست نے کہا آپ کی فلاں پالیسی غلط ہے تو میں نے کہا ٹھیک کہا اب اسی غلط پالیسی کی بنیاد پر ہم کامیابی حاصل کریں گے اور وہی غلط پالیسی ہی کامیابی کی ضمانت بن گئی  کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب فیصلہ سازی کا اختیار کسی کو دے دیا جائے اور وہ جانتا بھی ہو کہ اس نے پوری ٹیم کو کہاں لیکر جاناہے تو تحریک کو چلانا آسان ہوتا ہے تحریکی زندگی کے دوران بہت سے یو ٹرن آتے ہیں اور بہت سے یوٹرن لینے پڑتے ہیں وہ بھی مجبوری ہوتی ہے لیکن ٹیم کا اعتماد ہو تو یوٹرن بھی لیئے جاسکتے ہیں  بہت سے بحران آتے ہیں ہرروز ایک نئی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جہاں   ہر نیا دن جہاں ایک نئی کامیابی لیکر آتا ہے وہاں ہرروز نئے بحران بھی منتظر ہوتے ہیں اور  ان سارے مسائل کا ایک ہی حل ہوتاہے ممبرز بورڈ آف ڈائریکٹرز کا مکمل تعاون  اور یہ بات کہ وہ آپ کے ساتھ اور ادارے کے ساتھ کتنے مخلص ہیں جوں ہی بورڈ کے ممبرز انگلی کرنا شروع   کریں جب بلاوجہ کی تجاویز سامنے آنا شروع  تو سمجھ لیں کہ بھینس  کود گئی تالاب میں اب وہ پورے تالاب  میں بلاوجہ کی ہلچل مچائے گی
بعض فیصلے غلط بھی ثابت ہوئے لیکن ان کو سنبھالنا بھی ایک فن ہے اور میں نے ان کو بروقت سنبھالا میدان میں کھڑے ہو کر تنقید کا سامنا کرنا مشکل ترین کام ہوتا ہے لیکن سب سے بڑی شرط کامیابی کی یہ بھی ہے کہ ادارے کا سربراہ دلیر ہو بہادر ہو بزدل نہ ہو  تحریک وہ کامیاب ہوتی ہے جس کا لیڈر اپنی تحریک کیلئے جان دے سکتا ہو اور کسی کی جان لے بھی سکتا ہو جو لیڈر اپنی تحریک کیلئے سینہ تان کر جان نہ دے سکتا ہو  وہ کامیاب نہیں ہوسکتی
 دوسری طرف "رول آف لاء " پر کیا گزری وہ دوسال میں صرف منشور بنانے  میں کامیاب ہوچکے ہیں  ابھی دستور بنانا باقی ہے اس کے علاوہ تنظیم کے "لوگو" بنانے پر جھگڑا چل رہا ہے  تین گروپ بن چکے ہیں  ٹرسٹی ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے   دوسال میں فیصلہ سازی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا  کہ فیصلے کون کرے گا  " ہر ساہ نال آہ نکلے" صدر کہتا ہے کہ میں طاقتور ہوں ممبرز بورڈ آف ڈائرکٹرز کہتے ہیں کہ بورڈ کے سامنے صدر کیا بیچتا ہے چیئرمین کا عہدہ تخلیق کیا جارہا ہے تاکہ صدر کو لگام ڈالی جاسکے   آج تک کوئی پروگرام نہیں کرسکے بورڈ کا اجلاس بک بک سے شروع ہوتا ہے اور جھک جھک پر ختم ہوجاتا ہے کسی  دوسرے ادارے کے ساتھ نیٹ ورک کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا رول آف لاء کا کوئی دشمن نہیں ممبرز خود ایک دوسرے کے پیچھے دومنہ والا دادو کا کلہاڑا لیکر گھوم رہے ہیں  میرا دوست جس نے بنیاد رکھی کل کہہ رہا تھا کہ یار پھنس گیا ہوں  نہ آگے کے ہیں نہ پیچھے کے فرمائشیں الگ ہیں اجلاس کے بعد  مٹن کڑاہی سے کم میں راضی نہیں ہوتے وہ بھی سارا خرچہ  میرے گلے  آپس کے جھگڑے ہی ختم نہیں ہورہے  میں نے کہا اب  کچھ نہیں ہوسکتا بھینس تالاب میں کود چکی ہے اب وہ واپس آنے سے رہی   
جب بھی کوئی تحریک شروع کی جائے مقاصد واضح ہوں دوست پرخلوص ہوں اور ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کرتے ہوں  تو اللہ کی مدد بھی شامل ہوجاتی ہے اور کامیابی ضرور ملتی ہے    
اسی دوران میرے دوست کو اندر جانا پڑا کیونکہ ممبرز بورڈ آف ڈائرکٹرز کے اجلاس کے دوران  اوئے اوئے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں  اسی دوران ان کے  ایک ساتھی نے ہانپتے ہوئے باہر آکر بتایا کہ  بورڈ آف ڈائریکٹرز  اجلاس کے دوراننے ایک دوسرے کے سر پھاڑ دیئے ہیں  کیونکہ" رول آف لاء "کے لوگو  بنانے پر اختلاف پیدا ہوگیا تھا ایک گروپ کا مؤقف تھا کہ رنگ پیلا
ہو دوسرے کا مؤقف تھا کہ  رنگ  کالا ہو

No comments: