Powered By Blogger

Saturday 26 July 2014

پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے


آج سے چند سال ہی پرانی بات ہے سٹی کورٹ میں ایک لڑکا آتا تھا اس کی آواز بہت ہی پیاری تھی وہ کراچی بار کی کینٹین میں وکلاء کے ساتھ آجاتا اور وہاں اس سے  وکلاء گانے سنتے تھے اور داد دیتے تھے  اس کے بدلے میں ایک کپ چائے اور کھانا کھلادیتے تھے   نوجوان وکلاء  کا ایک گروپ روزانہ وعدہ کرتا کہ پانچ روپے دیں گے لیکن گانا سننے کے بعد وہ اس سے پانچ روپے بھی واپس لے لیتے تھے  کیونکہ ان کا اپنا ہاتھ بھی تنگ تھا اس طریقے سے بھی اس کی اچھی خاصی آمدن ہوجاتی تھی  کیونکہ اور وکلاء بھی پیسے دیتے تھے
پھر ایک دن وہ لڑکا غائب ہوگیا وہ ایک نہایت ہی باصلاحیت لڑکا تھا اس کی آواز کا معیار انٹرنیشنل معیار کا تھا لوگوں نے قدر تو کی لیکن اپنی حیثیت کے مطابق کی
وہ اس گروپ کا بھی احسان مند تھا جو اس سے پانچ روپے دینے کا وعدہ کرتے تھے لیکن پورا نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے ہی اس کو اس کینٹین میں متعارف کروایا تھا
اس گروپ کا ایک ممبر میرا دوست ہے کل اس نے مجھے یہ سارے واقعات فلم کی طرح سنائے کیونکہ 1998 میں ہم بار کے ممبر نہیں تھے کہ وہ ایک لڑکا تھا بہت اچھا تھا ہمیں گانے سناتا تھا آواز بہت پیاری تھی ہرروز آتا تھا ہم صرف چائے پلاتے تھے اور میرا ایک ساتھی پانچ روپے کاوعدہ کرکے واپس لے لیتا تھا وہ بہت کہتا تھا یار ایسا نہ کرو
بعض اوقات ضرورت انسان کو کتنا مجبور کردیتی ہے اور بڑے بڑے باصلاحیت افراد کو کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ضرورت مند انسان جب انسان کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر انسان تو ظالم ہی ہے ناں 
میرے دوست نے کہا یار کل ایک عجیب معاملہ ہوا کلفٹن سے جارہا تھا کہ ایک نئے ماڈل کی کار میرے پیچھے لگ گئی بہت جان بچائی لیکن اس نے بالآخر مجھے ایک  جگہ گھیر ہی لیا اور میرے آگے کار کھڑی کردی میں اس صورتحال سے پریشان ہوہی رہا تھا کہ اس کار کی فرنٹ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ مجھے جانا پہچانا سا لگا تو اس نے کہا وکیل ساب پہچانا نہیں  میں نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اس کو پہچانا یہ تو وہی لڑکا تھا
اس نے کہا آپ کو میں نے بہت تلاش کیا آپ ملے ہی نہیں کیونکہ میرا دوست اسی دوران  1999 میں اعلٰی تعلیم کیلئے بیرون ملک چلا گیا تھا  اس نے کہا آج آپ کو سگنل پر پہچانا بہرحال مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے یہ تو میڈیا کے زریعے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک نامور گلوکار بن چکا ہے لیکن ملاقات پندرہ سال بعد ہورہی تھی لیکن آنکھوں پر پھر بھی یقین نہیں آرہا تھا   وہ مجھ سے مل کر بہت ہی خوش ہورہا تھا روڈ پر ایک مختصر سی ملاقات کرکے جانے لگا تو میں نے کہا کبھی آؤنا بار میں اس نے ہنس کہ کہا کہ مجھے پتہ ہے تم لوگ مجھے پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے یہ کہہ کر وہ چلاگیا  
یااللہ کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے مجبور نہ کرنا  یہ انسان دنیا کا سب سے ظالم درندہ ہے
اس نوجوان کو آج پورا پاکستان رحیم شاہ کے نام سے جانتا ہے   میں یہ واقعہ شیئر نہ کرتا اگر رحیم شاہ نے خود شیئر نہ کیا ہوتا 

1 comment:

Unknown said...

اگر آپ اس گلو کار کا نام نہ بتاتے تو ہمیشہ تجسس رہتا۔ رحیم شاہ ایک اچھا گلوکار ہے ۔آپ نے اچھا کیا یہ واقعہ شئر کر کے ورنہ شاید ہم اسکی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں کبھی نہ جان پاتے