Powered By Blogger

Tuesday 17 December 2013

چیف جسٹس صاحب ڈسٹرکٹ کورٹس آپ کی منتظر ہیں

نئے چیف جسٹس کو کیا کرنا چاہیئے
ذاتی طور پر میں افتخار محمد چوہدری صاحب کو صرف "نشان منزل "سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان میں آزاد عدلیہ کی روایات ابھی مضبوط نہیں  عدلیہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے  اسی طرح پاکستانی معاشرہ بھی مسائل کا شکار ہے آئینی حقوق تو موجود ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کی روایات ابھی مستحکم نہیں ہیں عدلیہ کا "ازخودنوٹس" عدالتی دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن میں چند وجوہات کی بنیاد پر اس کو برا نہیں سمجھتا اہم وجہ یہ ہے کہ کافی مسائل ایسے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے حقوق مانگنے عدالت جاتا ہے  یا آئینی پٹیشن داخل کرتا ہے تو ریاست کی جانب سے اس کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ کراچی میں گٹر باغیچہ کے تمام پٹیشنرز موت کی گھاٹ اتارے جاچکے ہیں  بعد ازاں گٹر باغیچہ کو آبادی کیلئے الاٹ کیا گیا اسی طرح اسٹیل مل سے لیکر کرائے کے بجلی گھروں تک کے معاملات ایسے ہیں کہ پاکستان میں سول سوسائٹی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ  وہ ایسے معاملات عدالت میں لایئں اور پھر ریاستی تشدد کا سامنا کرپایئں  تنقید کے باوجود "ازخود " نوٹس  کی افادیت سے انکار ممکن نہیں  گزشتہ دنوں چیف صاحب نے میڈیا سے دور  رہنے کی جو پالیسی اختیار کی اس کو لوگوں نے پسند کیا  امید ہے چیف صاحب میڈیا سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے
افتخار محمد چوہدری صاحب سے لوگوں کو ایک ہی شکوہ تھا کہ انہوں نے ماتحت عدلیہ کو نظر انداز کیا میری چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ شیڈول بنائے بغیر انتہائی خاموشی سے کراچی تشریف لایئں اور سیدھا کراچی کے ڈسٹرکٹ کورٹس پہنچ جایئں   ایک دن کورٹ میں گزاریں لیکن کورٹ کی کاروائی معمول کے مطابق چلنے دیں  صرف مشاہدہ کریں کہ کیا ہورہا ہے   سیشن جج سے معمول کی ملاقات کے علاوہ بار سے بھی نہ ملیں کوئی میڈیا نہیں کوئی کیمرہ نہیں    آپ مشاہدہ کریں گے کہ ایک عام شہری کن مسائل سے دوچار ہے
  آپ سیشن ججز سے ریکارڈ طلب کریں کے گزشتہ پانچ سال کے دوران  پولیس افسران کے خلاف عدالت کے حکم پر جو مقدمات درج ہوئے ان کا اوریجنل ریکارڈ منگوا کر دیکھیں کہ کس طرح عدلیہ نے پولیس کو تحفظ فراہم کیا اور کیوں؟ آپ کراچی میں غیرقانونی حراست کے ان تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کریں  جن میں عدالتی بیلف نے تھانے پر چھاپے کے دوران شہریوں کو پولیس کی  غیرقانونی حراست سے نجات دلائی  لیکن بعد میں سیشن ججز نے عدلیہ اور انتظامیہ کی خاموش مفاہمتی پالیسی یا گٹھ جوڑ کے تحت اپنے چیمبر میں بٹھا کر چائے پلاکر ملزم پولیس افسران  کے خلاف  مقدمہ درج کیئے بغیرباعزت طور پر گھر جانے کی اجازت دے دی سیشن ججز سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور ایسا کیوں ہورہا ہے اس تمام کاروائی کے بعد   دیکھیں کہ کیا ہونا چاہیئے  آپ کی عدلیہ شہریوں کو کیا سہولت دے سکتی ہے لیکن عدلیہ کے پاس بہت سے پلان موجود ہیں جن کے مطابق وہ شہریوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب کے پاس ایک مکمل ورک پلان موجود ہے وہ 2005 میں کراچی میں ایک ماڈل عدلیہ کا پائلٹ پروجیکٹ کامیابی سے چلا چکے ہیں  ان کی خدمات لی جانی چاہیں  میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب نے ماتحت عدلیہ کا جو ماڈل 2005 میں پیش کیا تھا وہ حقیقت سے قریب ترین تھا   کم خرچ او ر بالانشیں بھی تھا اس ماڈل کے مطابق منہ زور وکلاء سے لیکر ہرقسم کی زمینی اور آسمانی بلاؤں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے  حیرت ہے کہ وہ ماڈل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا
عدلیہ کو متحرک کیا جائے کہ وہ کامیابی کی داستانیں سامنے لایئں  کہ کس طرح سے عدلیہ ہرروز شہریوں کے مسائل حل کرتی ہیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکے ججز کا مورال بلند کریں کہ  اگر ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہوں تو   ضابطے توڑ کر لوگوں کو انصاف فراہم کریں انصاف ضابطوں کا محتاج نہیں ہوتا  ماتحت عدلیہ کے ججز میں لیڈرشپ کی  شدید کمی ہے اس کو دور کرنے کیلئے   اقدامات کی ضرورت ہے

چیف جسٹس صاحب  ڈسٹرکٹ کورٹس  آپ کی عدلیہ کا وہ حصہ ہیں جہاں ہرروز لاکھوں کی تعداد میں شہری انصاف کے حصول کیلئے آتے ہیں بدقسمتی سے ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہونے والی کرپشن نے عدلیہ کو بدنام کیا لیکن یہ  حقیقت یاد رکھیں "سیشن عدالتوں میں پورا سال سو اوردوسو روپے کی ہونے والی کرپشن ایک طرف  اور عدالتی اوقات کار ختم ہونے کے بعد  جسٹس صاحبان کے چیمبر کے خفیہ راستے سے ہونے والا 5 کروڑ روپے کا (اسٹے) حکم امتناعی ایک طرف"

No comments: