Powered By Blogger

Monday 23 December 2013

مجسٹریٹ صاب راستہ بدل کر نہ جایئں تحریر صفی الدین اعوان

2009 ٹنڈو محمد خان سندھ
ایک مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے دروخواست وصول نہیں کی اور سائل کو نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا دونوں میں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا ایس ایچ کو بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کیا افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ ہو مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے اس لیئے پہلے ان کی اپنی بدلی کروائی گئی اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
2011

پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کے ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم ہی ہیں لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت ان کو بری نہ کرتی تو ہم کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس کسی کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا

No comments: