Powered By Blogger

Friday 20 December 2013

ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر مجسٹریٹ منتخب کرنے کیلئے سندھ ہایئکورٹ کے سلیکشن بورڈ نے انٹرویوز کا آغاز کردیا

اسلام آباد ہایئکورٹ سمیت پاکستان کی تین صوبائی ہایئکورٹس نے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار سلیبس اور رولز بنادیئے ہیں کل نمبر 750 اور کالی شیروانی والوں کو انٹرویو کے 100 نمبر دیئے ہیں تاکہ وہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کسی غریب طالب علم کو فیل نہ کرسکیں صوبہ سندھ میں کوئی تحریری رولز اور دیگر ہایئکورٹس کی طرح سلیبس اس لیئے موجود نہیں کیونکہ کالی شیروانی والے اپنی پسند اور اقرباء پروری چاہتے ہیں اس لیئے وہ انٹرویو کے دوران جس کو چاہے رکھ لیتے ہیں جس کو چاہے فیل کردیتے ہیں چونکہ دیگر ہایئکورٹس نے شیروانی والوں کو نمبر ہی 100 دیئے ہیں اس لیئے کسی کے ساتھ من مانی نہیں کی جاسکتی جیسا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن ججز کی تعیناتی کے دوران من مانی کرکےصرف تین جج لیئے گئے جن میں سے دو تو سندھ جوڈیشل رولز 1994 کے تحت امتحان میں شرکت کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے جبکہ اہلیت رکھنے والے چار اہل افراد کو  وجہ بتائے بغیر فیل کردیا گیا کیا ان لوگوں نے سندھ کے باصلاحیت نوجوانوں کو ہاری کسان سمجھا ہے ؟ ان چار ذہین نوجوانوں میں کراچی ملیر کا ایک ذہین ترین نوجوان ہے جو کہ ایک مقامی لاء کالج میں پروفیسر بھی ہے واضح طریقہ کار کے بغیر سندھ ہایئکورٹ کے وہی ججز اور وہی بورڈ جنہوں نے میرٹ کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر سندھ جوڈیشل رولز 1994 کو پاؤں تلے روند کر سفارشی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج بھرتی کیئے اب وہی دوبارہ سندھ کے ذہین نوجوانوں سے انٹرویو لے رہے ہیں سلیکشن کا معیار وہی ہے زاتی پسند ناپسند 
اسلام آباد ہایئکورٹ کے رولز طریقہ کار نہ صرف ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں بلکہ اشتہار میں بھی طریقہ کار بیان کردیا گیا ہے ملاحظہ فرمایئے کیا پانچ افراد کو سندھ کے ذہین نوجوانوں کے مستقبل سے بار بار کھیلنے کی اجازت دی جاسکتی ہے
http://www.nts.org.pk/ntsweb/IHC_14_15_16_July2012/AD.pdf

No comments: