Powered By Blogger

Friday 6 December 2013

مطمئن افتخار چوہدری کا رنج ٭٭٭ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو

نو مارچ سنہ 2007 کو افتخار محمد چوہدری کے انکار سے جنم لینے والی سپریم کورٹ نے پچھلے ساڑھے پانچ برس میں جو چاہا سو کیا۔
پرویز مشرف کے اقدامات کے حامی ایک سو کے لگ بھگ چھوٹے بڑے ججوں کو گھر بھیجنے سے این آر او کو کالعدم قرار دینے تک۔
اور پھر آئندہ ماورائے آئین تبدیلی کا راستہ روکنے کے لیے آئین کے آرٹیکل چھ کا تشریحاتی دائرہ بڑھایا اور آنے والی اعلیٰ عدالتوں کو بھی پابند کردیا کہ وہ کسی بھی طالع آزما کے ماورائے آئین اقدامات کے حرام کو حلال قرار نہیں دے سکتیں ورنہ فیصلہ دینے والے جج بھی آرٹیکل چھ کی زد میں ہوں گے۔شائد اسی لیے قومی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق آمر پر آرٹیکل چھ کے تحت جیسا کیسا مقدمہ قائم ہو سکا۔
نئی جنمی سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم کو کٹہرے میں بلایا۔ ان میں سے ایک کو صدرِ مملکت کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے پر پرائم منسٹر ہاؤس سے نہ صرف ملتان واپس بھجوا دیا بلکہ جاتے کے سیاسی اٹیچی کیس کو اگلے پانچ برس کے لیے سربمہر بھی کردیا۔چنانچہ اگلے وزیرِ اعظم کی کیا مجال کہ خط نہ لکھتا۔بلکہ اس نے تو سوئس حکام کو ایک کے بجائے دو دو خط لکھ دیے۔
(ایک خط میں مقدمات کھولنے کا مطالبہ اور دوسرے میں یہ مطالبہ پورا نہ کرنے کا مطالبہ۔گویا ایک خط سے عدالت کو اور دوسرے سے صدرِ مملکت کو راضی کر دیا۔نتیجہ ڈھاک کے تین پات)۔
نئی نئی توانائی سے سرشار سپریم کورٹ نے پیٹرول اور چینی کی قیمت سے لے کر احتسابی ادارے نیب کے تین سربراہوں کو فکس کرنے تک۔سٹیل مل کی ارزاں فروخت رکوانے سے لے کر میمو گیٹ، نیشنل انشورنس، حارث سٹیل، اوگرا، رینٹل پاور، کراچی بدامنی، ری پبلک آف بحریہ ٹاؤن، این ایل سی کے جرنیلی گھپلوں تک ہر مشکوکیت کا نوٹس لیا۔کچھ کو خود طلب کیا تو کچھ نیب کے حوالے کر دیے تو کچھ کیس آہستہ روی کے فرمے پر چڑھا دیےگئے کہ فرصت سے دیکھیں گے۔
ساٹھ سالہ بے عملی کی خاک جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہونے والی نئی سپریم کورٹ نے پچھلوں کی طرح صرف یہ انتظار نہیں کیا کہ مسئلہ خود چل کے آئے تو دیکھیں گے۔ جو مسئلہ خود چل کے نہیں آیا اسے ازخود نوٹس کے ذریعے چلوا دیا اور جس نے بھی زنجیر ہلائی اسے اندر بلایا ضرور۔
پچھلے 65 برس میں یہ پہلی سپریم کورٹ ہے جس کا میڈیا دیوانہ ہے کیونکہ عدالت نے بھی تو ہر چھوٹے بڑے مقدمے کی سماعت کے دوران میڈیا کو اپنے تبصروں، دلچسپ رولنگز اور تلخ و شیریں مزاجی اتار چڑھاؤ کے من و سلوی سے مالا مال کیے رکھا اور بریکنگ نیوز کی ندیدی ضرورتوں کو کما حقہہ سمجھا۔ اس دوران فیصلے تو بولے ہی بولے معزز جج بھی خوب بولے۔
مختصر یہ کہ افتخار محمد چوہدری کی سپریم کورٹ کا دوسرا اور تیسرا جنم ہنگامہ خیزی اور معنویت سے بھرپور رہا اور اب گیارہ روز بعد چیف صاحب کورٹ نمبر ایک کا چوبی انصافی ہتھوڑا اپنے جانشین کے حوالے کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ شائد وہ دوبارہ قانونی پریکٹس میں آنے یا قانون پڑھانے کے امکانات پر غور کریں۔ شائد اپنی ہنگامہ خیز یادداشتیں لکھنے کے بارے میں سوچیں’ایڈوکیٹ جنرل سے جنرل تک ‘۔۔۔
یا پھر گھر کے لان میں پودوں کو پانی دیتے ہوئے ارسلان کے سوالیہ نشان پر دھیان دیں۔ یا سردیوں کی دھوپ سے سنہری ہوتے لان میں چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ کو اوپر جاتے دیکھ کر اس خیال کی گرفت میں آ جائیں کہ انفرادی مگرمچھوں پر کمند ڈالنے میں جتنا وقت صرف ہوا۔اس سے آدھا وقت اگر منہ زور وکیلوں اور مظلوموں کی آہوں کے بوجھ سے کراہتے زیریں عدالتی ڈھانچے کو درست، پاک اور الف کر دینے پے لگا دیا جاتا تو کیسا ثوابِ جاریہ ہوتا۔
یا پوری ریاستی سویلین مشینری کو چوبی کٹہرے میں پسینوں پسینی پنجوں کے بل کھڑا کر کے نقد بیستی کے مناظر یاد کرتے ہوئے بالکنی میں کھڑے کھڑے بےدھیانی میں مسکرا دیں اور پھر اچانک یہ سوچ کر رنجیدہ سے ہو جائیں کہ ساری عدالت ایک طرف خفیہ کا کرنل ایک طرف۔
کون کہتا ہے دیوتا بے بس نہیں ہوتے۔


No comments: